ہم مسلمانوں کے زوال کے چند اسباب

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش

آج سے ساڑھے چودہ سو سال پیشتر عرب کے بادیہ نشین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محمد عربی ﷺ کی صدا حق پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، اور پورے صحرائے عرب پر چند سالوں میں چھاگئے، پھر خلفاء راشدین کے دور میں عرب سے باہر افریقہ اور یورپ میں بھی اسلامی جھنڈے لہرادئیے، خطہ ارضی کے اکثر و بیشتر علاقوں میں رب کریم کی وحدانیت کا ڈنکا بجنے لگا۔
جہاں بھی گئے کامیابی سے ہم کنار ہوتے گئے، باشندگانِ عالم ان کے اخلاق و کردار، اقوال و افعال سے متاثر ہو ہو کر جوق در جوق حظیرۂ اسلام میں داخل ہوتے گئے، اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے نام لیوا ہوتے چلے گئے، صحرا میں اسی رب کی پکار آبادی میں بھی اسی خالقِ کائنات کی وحدانیت کی صدا بلند ہونے لگی، اور صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ روزانہ دن بھر میں پانچ مرتبہ بلند مقام پر بلند آواز سے انہیں کا نام گونجنے لگا، یہ ایسا پیارا نام ہے کہ اس صدائے ربانی کو سن کر لوگوں کو سکون حاصل ہونے لگا اور پھر حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے، ایمان کی باد بہاری ہی نہیں چلی بلکہ ایمان کی آندھی چلی اور سیکڑوں معبودان باطل کے پرستار ایک رب ذوالجلال کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے بنتے چلے گئے۔
رب کا نام بلند ہونے لگا تو رب نے ان پر آسمان سے برکات کے دہانے کھول دئیے، مال و زر سے نوازا، حکومت و سلطنت دی تاکہ انسان عالم پر عدل وانصاف کا چلن عام ہو، اخوت و بھائی چارگی عام ہو، اور یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال تک چلتا رہا، اس درمیان ان کا اپنے رب کریم سے مضبوط ترین رشتہ قائم رہا۔
لیکن جیسے ہی اس رشتہ میں کمزوری آئی تو رب کریم کا الطاف عنایت بھی رخ موڑا، اور اس کے ہاں سے وہ شان و شوکت رخصت ہوئی جو کبھی اس کے لئے مثل باندی و لونڈی تھی، اور مسلمانان عالم کے عروج کا ستارہ زوال کی راہ لی،جو ہنوز جاری ہے، اس زوال کے جہاں بہت سارے وجوہات ہیں وہیں چند چیزیں یہ بھی ہیں بقول پروفیسر محسن عثمانی صاحب دامت برکاتہم موصوف لکھتے ہیں:
مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کا جاننا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے بغیر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے ہیں، اسلام کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنے اور عروج و زوال کے اسباب و علل پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی شناخت کھودی ہے اور ان کے وہ اوصاف باقی نہیں رہے، جن سے وہ پہچانے جاتے تھے۔
(1) پہلے ایمان اور عدل و اخلاق اور اللہ کا خوف اور تقوی اہل ایمان کا شعار تھا، یہ شعار اب باقی نہیں رہا۔
(2) اشداء على الكفار اور رحماء بينهم دشمنوں کے مقابلے میں سخت اور آپس میں مہربان، یہ خصوصیت باقی نہیں رہی۔
(3) دین اسلام کی دعوت اور اسلامی تعلیمات کا تعارف یہ اہل ایمان کا مشن تھا، یہ مشن باقی نہیں رہا۔
(4) دنیا پر آخرت کو ترجیح اور موت سے بے خوفی، یہ مسلمان کی پہچان تھی، یہ پہچان ختم ہو گئی۔
(5) علم و تحقیق اور سائنس اور عسکری طاقت میں مسلمان سب پر فائق تھے، اب مسلمان تمام قوموں سے پیچھے ہوگئے۔
یہ وہ اسباب و علل ہیں جس کی وجہ سے آج ہم مسلمانان عالم دن بدن زوال کی جانب بڑھتے ہی جارہے ہیں، اگر آج بھی ہم ان چیزوں پر عمل پیرا ہو جائیں، جو ہماری خصوصیتیں تھیں، تو ہم زوال سے عروج بہت جلد حاصل کرلیں گے۔ ان شاءاللہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و ایقان میں پختگی عطاء فرمائے (آمین)