تحریر:عبدالمنعم فاروقی
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ،اس کی تعلیمات نہایت مضبوط ،مستحکم اور عالم انسانیت کے لئے سراپا رحمت ہیں ، اسلام ایک آسمانی وربانی مذہب ہے اس کے احکامات و تعلیمات منزل من اللہ ہیں ، اسلامی احکام کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر حکم فطرت انسانی کے عین مطابق ہے،جس میں انسانی مزاج ومذاق کی مکمل رعایت موجود ہے ،اسلامی عبادات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کے لئے صحت وتندرستی کا باعث ہے،روحانیت کی ارتقاء کا ذریعہ ہے اور سماج و معاشرہ کے لئے بے شمار فوائد کے ضامن بھی ہے ،زکوٰۃ اسلام کا بنیادی رکن ،مہتم بالشان عبادت اور معاشرہ کی فلاح وبہبود اور اس کے استحکام کا بے مثال معاشی نظام ہے ،زکوٰۃ کے لغوی معنیٰ پاکیز گی کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں ایک مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد صاحب مال پر اس مال میں سے ایک مقررہ مقدار میں مال نکال کر عبادت کی نیت سے غرباء ومساکین کو دے کر انہیں اس کا مالک بنانا ہے،اس کا بنیادی مقصد غریبوں کی مدد ،معاشرتی فلاح وبہبود میں صاحب ثروت لوگوں کا حصہ ملانا اور مستحق لوگوں تک زندگی گزار نے کا سامان بہم پہنچانا ہے۔
زکوٰۃ اسلام کا بنیادی رکن :زکوٰۃ اسلام کا تیسرا اہم ترین رکن اور دین کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ،قرآن مجید میں ستر سے زائد مقامات پر زکوٰۃ اور نماز کا اکھٹا ذکر موجود ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کا درجہ ایک دوسرے کے برابر ہے،قرآن مجید اور احادیث شریف میں زکوٰۃ کی ادائیگی کو خدا کی خوشنودی ورضامندی کا بہترین ذریعہ بتایا گیا ہے،اور زکوٰۃ نہ نکالنے والے کو عذاب آگ کی وعید سنائی گئی ہے،زکوٰۃ دراصل مال کی تطہیر،مال میں اضافہ وخیر وبرکت، مرض حب ِ مال سے حفاظت ، مال کے شر سے حفاظت، غریبوں کی اعانت اور آخرت میں بے حساب اجر وثواب کا ذریعہ ہے، آپؐ کا ارشاد ہے کہ’’اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ کرو،اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصیبتوں کا دعا سے مقابلہ کرو( ابوداؤد)ایک اور حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰۃ نہیں نکالتا تو یہ مال قیامت میں سانپ بن کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور وہ کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ،تیرا خزانہ ہوں(بخاری:۱۴۰۳)، شریعت میں مالدار( صاحب نصاب)کے مخصوص مال میں فقراء اور مستحقین کے لئے ایک مقدار متعین مال کے نکالنے کا نام ’’زکوٰۃ ‘‘ ہے ،اس کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ادا کرنے سے مال میں زیادتی ،خیر وبرکت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔
زکوٰۃ کی افادیت :زکوٰۃ میں نیکی وثواب کے علاوہ افادیت کے بہت سے پہلو ہیں جس پر علماء نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ،ماضی قریب کے معروف بلند پایہ ،بزرگ عالم مولانا محمد منظور نعمانی ؒ نے زکوٰۃ کی افادیت کے بنیادی تین پہلو ؤں کا کچھ اس طرح ذکر کیا ہے ، لکھتے ہیں کہ’’ایک یہ کہ مومن بندہ جس طرح نماز کے قیام اور رکوع وسجود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنی بندگی اور تذلل ونیازمندی کا مظاہرہ جسم وجان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا ورحمت اور اس کا قرب حاصل ہو اسی طرح زکوٰۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنی مالی نذر اسی غرض سے پیش کرتا ہے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسے اپنا نہیں بلکہ خدا کا سمجھتا اور یقین کرتا ہے اور اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کر نے کے لئے وہ اس کو قربان کرتا اور نذرانہ چڑھاتا ہے،دوسرا پہلو زکوٰۃ میں یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے ضرورت مند اور پریشان حال بندوں کی خدمت واعانت ہوتی ہے ،اس پہلو سے زکوٰۃ اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے،اور تیسرا پہلو اس میں افادیت کا یہ ہے کہ حب مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کُش اور نہایت مہلک روحانی بیماری ہے ،زکوٰۃ اس کا علاج اور اس کے گندے اور زہریلے اثرات سے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کا ذریعہ ہے(معارف الحدیث ۴؍۲۰) ۔
زکوٰۃ کا حکم :زکوٰۃ کے سلسلہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مسلمان مالدار سے لی جائے گی اور مسلمان غریب ہی کو دی جائے گی(ترمذی:۶۴۹)۔مصارف زکوٰۃ:قرآن مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (توبہ :۶۰)’’ خیرات (زکوٰۃ ) کا مال تو صرف فقیروں اور مسکینوں اور زکوٰۃ کی وصولی کرنے والوں اور جن کا دل ملانا مقصود ہے اور غلاموں اور قرابت دا روں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کے لئے ہے اور یہی اللہ کا قانون ہے بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا حکیم ہے ۔‘‘ زکوٰۃ کے جملہ یہ آٹھ مصارف ہیں ، مالِ زکوٰۃ ان میں سے کسی ایک یا چند پر خرچ کرنا ضروری ہے ،چونکہ ’’غلام ‘‘ کا اب وجود باقی نہیں نیز حنفیہ کے یہاں ’’ مؤلفۃ القلوب‘‘ بھی منسوخ ہے،ان دونوں کو چھوڑ کر اب کل چھ مصارف باقی رہ جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں (۱)’’ فقیر‘‘ وہ شخص جو بالکل نادار ہو۔ (۲)’’ مساکین‘‘جس کے پاس سامان ِ کفایت کا کچھ حصہ ہو ،لیکن پورا نہیں اور ابھی اس کی حاجت باقی ہو۔(۳)’’عاملین‘‘ جن کو زکوٰۃ وعشر وغیرہ کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔(۴)’’ مقروض ‘‘ جو صاحب نصاب ہو لیکن اس پر لوگوں کے اتنے قرض ہوں کہ ان کو ادا کرے تو صاحب نصاب باقی نہ رہے۔(۵) ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ احناف کے یہاں اس سے خصوصیت کے ساتھ وہ اہل حاجت مراد ہیں جو جہاد،دینی تعلیم کے حصول میں لگے ہوئے ہو ں ۔(۶)’’ مسافر ‘‘ وہ لوگ جو اصلاً زکوٰۃ کے حقدار نہ ہوں ،لیکن سفر کی حالت میں ضرورت مند ہو گئے ہوں ،یہ اتنا ہی لیں جتنا کہ کام چل جائے (کتاب الفتاویٰ :۳؍۲۸۴ تا ۲۸۶)۔
سادات کے لیے زکوٰۃ کاحکم:رسول اللہ ؐ نے بنوہاشم یعنی سادات پر زکوٰۃ حرام قرار دیا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا’’ان الصدقۃ لا تحل لنا‘‘ (ترمذی :۶۵۷) اس لئے سادات کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی،نیز زکوٰۃ صرف مسلمانوں کو ہی دی جائے گی ،غیر مسلموں کو نہیں (بخاری :۱۴۹۶)، ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا زیادہ بہتر ہے اگر وہ محتاج اور زکوٰۃ لینے کے حقدار ہیں ،اس صورت میں دوہرا اجر حاصل ہوگا ،ایک زکوٰۃ کی ادائیگی کا ،دوسرے صلہ رحمی کا،لیکن بعض لوگ زکوٰۃ کو صرف اپنے رشتے داروں تک ہی محدود کر لیتے ہیں یہ نا مناسب اور اسلامی اخوت کے خلاف ہے۔
پیشہ ور فقیروں کو زکوٰۃ دنیا؟ : غرباء ومساکین میں بعض تو وہ ہیں جنہوں نے گدا گری کو پیشہ بنالیا ہے ، صحت مند وتندرست ہیں اورقوت بازو سے کماکر کھا نے کی قوت رکھتے ہیں پھر بھی بھیک مانگتے رہے ہیں ،ایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ حلال نہیں،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:زکوٰۃ حلال نہیں ہے غنی( مالدار) اور تندرست وتوانا کے لئے(ترمذی:۶۵۴) اور دوسرے وہ فقیر اور مسکین ہیں جو شرم وحیا کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتے ہیں ،در اصل یہی حقیقی فقیر ومسکین ہیں اور امداد کے صحیح حقدار بھی ہیں ،نبی ٔ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا’’اصل مسکین وہ نہیں جو لوگوں کے پاس سائل بن کر جاتا ہے اور ایک دو لقمے یا ایک دو کھجور لے کر لوٹتا ہے بلکہ حقیقی مسکین وہ ہے جس کے پاس ضرورت پوری کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں اور لوگ اس کے حال کو جانتے بھی نہیں اور اس کا حال یہ ہے کہ غیرت وشرم کی وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرتا (بخاری:۱۴۷۹)۔
حقیقی مستحق تک زکوٰۃ کا پہنچانا :مالدار اور صاحب نصاب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رشتہ داروں،پڑوسیوں ، محلہ کے مستحق لوگوں پر نظر ڈالیں ساتھ ہی ان محلوں کا جائزہ لیں جہاں باضمیر مستحق غرباء ومساکین رہتے ہیں اور ان تک امداد پہنچانے کی کوشش کریں، سہولت کی خاطر کسی بھی فرد کو زکوٰۃ دے دینا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے ،اس سے حقیقی مستحق محروم ہوجاتے ہیں ،اگر تلاش کے باوجود حقیقی مستحق تک رسائی ممکن نہ ہو تو پھر ان دینی ،فلاحی اور رفاہی تنظیموں کے حوالے کر سکتے ہیں جن کی امانت داری ودیانت داری پر آپ کو اطمینان حاصل ہے،چونکہ یہ حضرات محلہ محلہ سروے کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں حقیقی مستحقین کا بخوبی علم رہتا ہے،۔زکوٰۃ دے کر احسان نہ جتائیں :زکوٰۃ دے کر ہر گز احسان نہ جتائیں بلکہ لینے والے کا احسان مانیں کہ اس کی وجہ سے آپ کا ایک اہم فریضہ ادا ہوا ہے، زکوٰۃ دے کر احسان جتانا گویا مال کماکر دریا میں ڈالنا ہے ،بعض لوگ بڑا شور شرابہ کر کے زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں ، یہ غریبوں کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے ،گرچہ صدقات واجبہ علانیہ دینے کی بھی اجازت ہے ،اس سے دوسروں کو ترغیب اور حوصلہ ملتا ہے، بد گمانی دور ہوتی ہے ، لیکن زکوٰۃ دیتے وقت کوئی ایسا طریقہ اپنا نا نہیں چاہیے کہ جس سے ریا ونمود کی بو مہکنے لگے ،اس سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ،دراصل اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص وللہیت پر ہی موقوف ہے۔
مدارس کو زکوٰۃ دینا دوہرااجر : اسی طرح مصارف زکوٰۃ میں مدارس دینیہ بھی شامل ہیں ، مدارس دینیہ کی اہمیت ،ضرورت اور افادیت سے امت مسلمہ اچھی طرح وقف ہے ،یقینا مدارس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور رہے گی ، مدارس دینیہ کی بڑی خوبی ہے کہ وہ بے حد کم وسائل اور نہایت قلیل آمدنی کے باوجود ان کالجس اور یونورسیٹیوں سے کہیں زیادہ بہتر خدمات انجام دے تے ہیں جن کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں،مدارس دینیہ اور ان میں پڑھنے ،پڑھانے والوں کو ملک کی سرحدوں اور اس کی حفاظت پر مامور سپاہیوں سے تشبیہ دی گئی ہے ،مدارس اور ان میں پرھنے ،پڑھانے والے دینی سر حدوں کے محافظ اور امین ہیں، یہ حضرات دین متین کی حفاظت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیںاور دشمنان اسلام کا ہر محاز پر مقابلہ کر تے ہیں،آج ہر طرف اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، جدید وسائل کی کنجی ان کے ہاتھوں میں ہے ،اسلام پرہر روز نیاوار کیا جا رہا ہے ،ان حالات میں تو مدارس دینیہ اور علماء کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، امت کو ان مدارس اسلامیہ اور علماء کے شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے ہوئے ہیں ،یہ تعلیم دین، تبلیغ دین کے ساتھ حفاظت دین کا اہم فریضہ انجام دے رہیں ،یقینا غرباء ،مساکین،مستحقین اور دینی ضروریات میں مال ودولت کا خرچ کرنا بہت بڑی سعادت اور دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے ،خدا کی راہ میں اور اس کے حاجت مند بندوں پر خرچ کرنے والوں کے لئے خدا ئے بزرگ وبرتر کی طرف سے مسرت کا پیغام ہے ،نبی ٔ رحمت ﷺ نے فرمایاکہ ’’ ہر بندے کو اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ اے آدم کے بیٹے !تو (میرے ضرورت مند بندوں پر) اپنی کمائی خرچ کر ،میں اپنے خزانہ سے تجھ کو دیتا رہوں گا( بخاری:۵۰۳۷)۔
رمضان میں زکوٰۃ : چونکہ رمضان المبارک جسے نیکیوں کا سیزن کہا جاتا ہے ،ماہِ مبارک میں خدا ئے رحمن کی طرف سے بندوں کو نیکیاں کمانے کے خوب مواقع فراہم کئے جاتے ہیں، اعلان ہوتا ہے نفل پر فرض کا ثواب اور فرض پر ستر فرضوں کا ثواب دیا جائے گا ، ماہ مقدس میںاہل ایمان کے لئے روزہ اور نماز تراویح ،دیگر نوافل ، ذکر واذکار، تلاوت قرآن، مناجات کے علاوہ خیر خیرات کرتے ہوئے غریبوں ،مسکینوں اور بے کسوں وبے بسوں کی مددکے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما ئی جاسکتی ہیں اور اس کے ذریعہ خدا کو راضی وخوش کیا جاسکتا ہے ۔ نبی رحمت ؐ اور رمضان میں سخاوت: خود نبی ٔ رحمت ؐ کا حال یہ ہوتا تھا کہ آپ ؐ باوجود لوگوں میں سب سے زیادہ سخی وفیاض ہونے کے رمضان المبارک آتے ہی سخاوت وفیاضی کے دریا بہا دیا کرتے تھے،حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ؐ نفع پہنچانے میں لوگوں میں سب سے آگے تھے،اور رمضان میں جبرئیل ؑ ملتے تو آپ ؐ اور بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے،اور جبرئیل ؑ آپ ؐ سے رمضان میں ہر روز ملاقات کرتے تھے،یہاں تک کہ پورا رمضان گزرجاتا تھا،جبرئیل ؑ آپ کے سامنے قرآن پڑھاکرتے تھے ،جب جبرئیل ؑ آپ ؐ سے ملتے تو آپ ؐطوفانی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے(بخاری :۱۷۷۴)،گویا پورا رمضان آپ ؐ کے دولت کدہ سے کثرت کے ساتھ خیر خیرات کی جاتی اور غریب ونادار،مفلس و مستحق افراد کی بھر پور اعانت کی جاتی تھی ، حضرات صحابہ ؓ بھی اپنے محبوب ؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستحقین کی دل کھول کر امداد کرتے تھے، تابعین رحمہم اللہ اور ان کے بعد سے لے کر آج تک ہر دور کے حاملین شریعت اور متبعین سنت رمضان المبارک میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس عظیم سنت کو زندہ کرتے چلے آرہے ہیں ، الحمد للہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس دور میں بھی اس کا سلسلہ بدستور جاری ہے ، اسی طرح اہل علم اور اکابرین امت کے توجہ و ترغیب دلا نے پر اس ماہ میں کثیر تعداد میں مسلمان نفلی صدقات سے ہٹ کر صدقات واجبہ (زکوٰۃ ) کی ادائیگی کا بھی خوب اہتمام کرتے ہیں ۔ رمضان میں ادائیگی زکوٰۃ کے فوائد : اکابر امت نے رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالنے کے بہت سے فوائد بیان کئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں (۱) چونکہ یہ مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ہے ،ہر سو رحمتوں وعنایتوں کی ہوائیں چلتی رہتی ہیں ،جس میں صاحب ایمان کے لئے نیکیوں کی طرف بڑھنا دیگر مہینوں کے مقابلہ میں زیادہ سہل ہوجاتا ہے ، اور پھر مسلمان کے لئے ایک فرض (روزہ)کی ادائیگی کے ساتھ دوسرا فرض(زکوٰۃ) ادا کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے ، (۲) زکوٰۃ کے سلسلہ میں سال متعین کرنے کے لئے یگر مہینوں کے مقابلہ میںرمضان المبارک زیادہ موضوع اور مناسب ہے ،کیونکہ اس مہینہ میں لوگ فرائض ،واجبات اور نوافل پر کثرت سے عمل پیرا ہوتے ہیں ،(۳) دیگر مہینوں کے مقابلہ میں اس ماہ میں زکوٰۃ کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے ۔