تحریر: ودود ساجد صاحب
آج کا کالم مختلف ہے۔یہ میرے مزاج کے برعکس ہے۔لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ آج کی سطور قارئین کے حوالہ کی جائیں۔اگر مجھے لکھنئو اور پٹنہ کے متعدد ایڈیشن کے مختلف قارئین احتجاجی فون نہ کرتے تو میں یہ سطور ہرگز نہ لکھتا کیونکہ میں اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کا عادی ہوں۔۔
گزشتہ 3 اپریل بروز اتوار یعنی رمضان کے پہلے روزہ کو قارئین نے میرا مستقل کالم ’ردعمل‘ ملاحظہ کیا تھا۔اس کا عنوان یہ تھا: جب رسول ﷺ شکایت کریں گے۔۔ یہ مضمون در اصل میری اس تشویش کی توسیع کے طور پر تھا جو میں کئی برس سے ظاہر کرتا آرہا ہوں۔۔
اس مضمون میں ان حفاظ کرام کے طرز عمل کی گرفت کی گئی تھی جو تراویح میں قرآن پاک کو چند راتوں میں پورا کردیتے ہیں اور جو قرآن پاک کو صحیح مخارج اور ادائیگی کے حقوق اور رعایت کے ساتھ نہیں پڑھتے۔اسی کے ساتھ قرآن پاک کے سننے والوں کو بھی خود قرآن پاک کی تعلیمات اور الله کے رسول کے مختلف فرمانوں کی روشنی میں متنبہ کیا گیا تھا۔ قارئین نے اس مضمون کو پسند بھی کیا تھا۔لیکن لکھنئو اور پٹنہ کے 8 ایڈیشنز میں یہ مضمون آج کی اشاعت میں دوبارہ شائع ہوگیا۔۔
میرے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے یہی ہو رہا ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت یہ سلوک پچھلی ایک دہائی سے کچھ زیادہ ہی دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔چونکہ کھلا سرقہ وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں چوری اور ڈکیتی کی شرعی اور اخلاقی قباحت کا علم ہے‘ اس لئے میں خود ہی خاموش ہوکر بیٹھ جاتا ہوں۔اب تو میں اس طرف توجہ بھی نہیں دیتا۔ کچھ لوگ تو میرے لکھے ہوئے مضامین کو باقاعدہ اپنا بناکر ویڈیو کی شکل میں ڈال دیتے ہیں۔لیکن آج کے واقعہ پر لکھنا اس لئے ضروری ہوگیا کہ انقلاب کے متعدد قارئین نے مضمون کی دوبارہ اشاعت پرناگواری کا اظہار کیا ہے۔۔
گزشتہ شب چیکنگ کیلئے ’انٹرنل گروپ‘ پرآنے والے ’رمضان اسپیشل‘ کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی تو عنوان دیکھ کر ٹھہرگیا۔عنوان یہ تھا:
تراویح میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کے نام ایک پیغام
حالانکہ اب اس پیغام کی ضرورت نہیں تھی۔رمضان کا مہینہ پورا ہونے والا ہے اور ہزاروں حفاظ نے اپنا قرآن پاک بھی پورا کرلیا ہے۔لیکن اس موضوع سے مجھے دلچسپی ہے‘اس پر میں لکھتا رہا ہوں اور گزشتہ 3 اپریل کو ہی اسی مفہوم کا میرا مضمون شائع ہوچکا ہے‘اس لئے مضمون کا پہلا پیراگراف پڑھا۔شروع کی محض ڈیڑھ سطر میری نہیں تھی اس کے بعد سب کچھ وہی تھا جو میں نے لکھا تھا۔پہلے کے بعد دوسرا‘ پھر تیسرا اور پھر سارے پیراگراف پڑھ ڈالے۔ایک ایک جملہ‘ ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف من وعن’ ہوبہو’ بعینہ وہی تھا۔کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا تھا۔یہاں تک کہ ’کوما‘ اور واوین تک جوں کے توں تھے۔مضمون کا خاتمہ بھی انہی سطور پر تھا کہ: پھر بھی ہمیں شکایت ہے کہ ظالموں کے مقابلہ میں ہمارے دفاع کیلئے الله کی نصرت نہیں آتی۔۔
دیر ہوچکی تھی لیکن میں نے نوئیڈا ہیڈ آفس میں سی ٹی پی/لیز لائن انچارج سے اس مضمون کی جگہ دوسرا مضمون لگانے کیلئے کہا۔انہوں نے اطلاع دی کہ پٹنہ اور لکھنئو کے سارے ایڈیشنز چھپ چکے ہیں۔۔ تاہم دہلی‘ این سی آر اور مغربی یوپی کے ایڈیشنز میں اس کو روکا جاسکتا ہے۔مضمون نگار کا نام یہ تھا:
عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی۔
مضمون نگار نے آخر میں خود اپنا تعارف یہ لکھا تھا: ( مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے رکن شوری اور مجلس احرار اسلام ہند کرناٹک اور تنظیم ابنائے ثاقب کے ترجمان ہیں۔)
سوشل میڈیا پر انہوں نے اپنا جو تعارف ڈال رکھا ہے اس کے مطابق وہ دوکتابوں‘ (1) تین سیاہ قانون اور (2) کشکول کلیمی کے بھی مصنف ہیں۔یہ دونوں کتابیں انہوں نے "حسب ایماء وارشاد حضرت مولانا عبدالعزیز صاحب پالن پوری” لکھی ہیں۔کشکول کلیمی میں انہوں نے داعی اسلام مولانا کلیم صدیقی کے افادات تحریر فرمائے ہیں۔یہ حصہ اول ہے۔یعنی ابھی اور حصے بھی شائع ہوں گے۔انہوں نے جس میل آئی ڈی سے یہ مضمون بھیجا تھا وہ یہ ہے:
abdurrahmanalkhabeer4@gmail.com
کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ اتنے بڑے القاب وآداب اور اتنے بزرگوں سے نسبت رکھنے والا ایک عالم دین‘ جس کے نام کے ساتھ اتنی اسلامی تنظیمیں جڑی ہوئی ہیں‘ اس درجہ کی کھلی چوری کرے گا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا شخص نے (جسے عالم کہتے ہوئے تکلف ہورہا ہے اورجسے سارق کہنا چاہئے) میرا یہ مضمون براہ راست انقلاب میں نہیں پڑھا بلکہ کہیں اور پڑھا۔ورنہ وہ یہ ہمت نہ کرتے کہ چوری شدہ مضمون کو انقلاب میں ہی شائع ہونے کیلئے بھیج دیتے۔اس کا یہ مطلب ہوا کہ ان سے پہلے یہ مضمون کسی اور نے بھی چوری کرکے کہیں اور اپنے نام سے شائع کرایا اور وہیں سے عبدالرحمن الخبیر قاسمی بستوی نے لے کر انقلاب کو اپنے نام سے بھیج دیا۔
مجھے معلوم ہے کہ ایک دو نہیں بلکہ ایسے کئی ’مضمون مافیا‘ موجود ہیں جو یہی کام کرتے رہتے ہیں۔اب وہ اتنے جری ہوگئے ہیں کہ کوئی انہیں شرم بھی دلاتا ہے تو انہیں شرم نہیں آتی۔ 2020 میں مہاراشٹر کے ایک مفتی صاحب نے باقاعدہ میرے ایک مضمون کو ویڈیو کی شکل میں اپنا بناکر پیش کردیا۔انہیں دہلی کے ایک صحافی نے توجہ دلائی تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنی چوری کا جواز پیش کردیا کہ انہوں نے جہاں سے اس مضمون کو لیا ہے وہاں اس مضمون پر ودود ساجد کا نام نہیں تھا۔۔ سوچتا ہوں کہ اگر ان مفتی صاحب سے کوئی مضمون چوری کے سلسلے میں فتوے کا طلبگار ہو تو وہ کیا فتوی دیں گے؟
دکھ ہوتا ہے کہ اردو ادب میں تو یہ وبا عام ہے۔بعض استثناء کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے اقتباسات اور مضامین یہاں تک کہ پی ایچ ڈی کے مقالوں تک کی چوری کرکے ادیب اور ڈاکٹر بن رہے ہیں۔لیکن یہ علماء کی نوجوان کھیپ کو کیا ہوگیا ہے؟ سرقہ اور وہ بھی دینی اور اسلامی مضامین کا؟ ایک سرقہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں تھوڑی بہت ردوبدل کرکے اپنا مضمون بنالیا جاتا ہے۔لیکن یہ تو کھلا ڈاکہ ہے کہ ایک ایک حرف وہی‘ ایک ایک جملہ وہی۔۔۔
زیر بحث مضمون میں الله‘ اس کے رسول اور قرآن وحدیث کی بات کی گئی تھی۔اگر لمبے چوڑے القاب وآداب والے عالم دین ایسے مضامین کی چوری کرکے اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ انہیں شائع کرا رہے ہیں تو پھر اس ملت کا کیا حال ہوگا۔۔۔ مذکورہ شخص کو ہی لے لیجئے۔مجھے ان کے بارے میں مزید تفصیل معلوم نہیں ہے لیکن ان کے خود کے بیان کردہ تعارف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہیں‘ وہ مردم خیز اور اہل علم کی سرزمین ‘بستی’ کے رہنے والے ہیں۔وہ کئی دینی اور اسلامی تنظیموں کے رکن ہیں۔تحفظ دین اور تحفظ اسلام جیسی تنظیموں کے ترجمان ہیں۔ایک سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔بڑی بڑی شخصیات انہیں کتابیں لکھنے کا ’حکم‘ دیتی ہیں۔ظاہر ہے کہ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار بھی سمجھتے ہوں گے۔وہ کسی مدرسہ میں ممکن ہے کہ پڑھاتے بھی ہوں‘ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی مسجد میں امامت بھی فرماتے ہوں۔ہوسکتا ہے کہ بچوں کو قرآن کی تعلیم بھی دیتے ہوں۔لیکن ان کی اخلاقی تنزلی اور پستی کا یہ حال ہے تو ان کی دینی خدمات کا کیا اثر ہوتا ہوگا؟
میں واقعات کو جنرلائز کرنے کے خلاف ہوں۔لیکن ایسے واقعات ایک دو نہیں درجنوں ہوچکے ہیں۔یہ نوجوان فضلاء آخر مدارس میں کس طرح کی تربیت پاکر آرہے ہیں؟ یا ان کی تربیت بالکل ہی نہیں ہورہی ہے۔ان کی علمی صلاحیت کا کیا حال ہے؟اس سب کو چھوڑئے ان کے زہد وتقوی کا کیا حال ہے؟ کیا یہ ملت‘ ظالموں کے مقابلہ میں زہد وتقوی کے بغیر الله کی مدد ونصرت کی مستحق ہوسکتی ہے؟ جو عالم دین اس درجہ کا حرام کام کرسکتا ہے وہ اور کیا کچھ نہیں کرسکتا؟ ایسے وقت میں کہ جب ہمیں ہر سطح پر دینی بنیاد پر اعلی اخلاقی نمونہ بن کر دکھانے کا چیلنج درپیش ہے‘ ہمارے یہ کچھ نوجوان علماء وفضلاء ایسی ایسی دینی تنظیمیں قائم کرکے‘ ان کے بینر تلے ایسے اخلاق سوز کارناموں میں ملوث ہیں؟
کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ عام مسلمانوں کو اور خود ثقہ علماء وفضلاء کو ایسے لوگوں کی پہچان کرکے انہیں معاشرہ کا ناسور بننے سے روکنا چاہئے؟
بشکریہ جناب ایم۔ودودساجد صاحب، روزنامہ انقلاب و جناب محمد قاسم ٹانڈی صاحب