ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ
ام القریٰ یونیورسیٹی مکہ معظمہ کنگ خالد یونیورسیٹی ابہا سعودی عرب، ناردن الّی نو اے یونیورسیٹی (NORHERN ILLINOIS UNIVARCITY)کے سابق پروفیسر ، ندوۃ العلمائ، لکھنؤ کی مجلس انتظامی ونظامت کے سابق رکن، مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے دست گرفتہ، صحبت وبیعت مجاز اور معتمد خاص ، کئی کتابوں کے مصنف ومترجم ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط نے ۲۵؍ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۸؍ مئی ۲۰۲۱ء کو اس دنیا سے رخت سفر باندھا، اس طرح علم وعمل اورفکر ونشاط کے اس پیکر خاکی کو لحد نے اپنے اندر سما لیا، لیکن ان کی خدمات ، تصوف سے ان کا شغف، خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ سے قربت، تاریخ کا حصہ ہے اور اسے کسی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط بن شاہ افضال الرحمن کا مولد ومسکن لکھمنیاں بیگو سرائے بہار ہے، بعد میں اوکھلادہلی کو انہوں نے اپنا مستقر بنالیا تھا۔ ۱۰؍ جون ۱۹۴۲ء کو اس عالم رنگ وبو میں تشریف آوری ہوئی، والد علاقہ کے مشہور زمیندار اور ایک اسکول میں استاذ تھے، لیکن ابھی ڈاکٹر عباد الرحمن نے عمر کی چھ بہاریں ہی دیکھی تھیں، کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، دس سال کے ہوئے تو والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں ، اس کے باوجود ڈاکٹر عباد الرحمن نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۷۰ء میں انگریزی زبان وادب سے آپ نے ایم اے کیا اور لکچرر کی حیثیت سے ایک کالج میں بحال ہو گیے، انگریزی زبان وادب میں کمال پیدا کرنے کے لیے انہوں نے امریکہ کا تعلیمی سفر کیا ، وہاں سے فراغت کے بعدسعودی عرب اور امریکہ کے کئی کالج اور یونیورسیٹیوں میں تدریسی خدمات انجام دیں اور انگریزی زبان وادب کے رمز شناش اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے علمی دنیا میں اپنا مقا م بنایا اور پوری زندگی صدق وصفا کے ساتھ گذار دی۔
ڈاکٹر صاحب اصطلاحی اور رسمی طو پر عالم نہیں تھے، لیکن ان کا خانوادہ اللہ والوں کا تھا، اور یہ نسبت نسلا بعد نسل منتقل ہو کر ڈاکٹر صاحب تک پہونچی تھی، ڈاکٹر صاحب کا نسبی تعلق حضرت شیخ سلطان مجددی بلیاوی بہاری سے تھا، جو عہد شاہ جہانی اور عالمگیری کے ممتاز ترین بزرگ تھے۔شیخ صاحب حضرت سید آدم بنوری (م ۱۰۵۳) کے خلفا میں سے تھے، ان کے ایک دوسرے خلیفہ خانوادۂ حضرت علی میاں ؒ کے مورث اعلیٰ سید شاہ علم اللہ حسنی رائے بریلوی (م ۱۰۹۶) تھے، ان دونوں خاندانوں میں جو قربت بڑھی اور حضرت مولانا علی میاں ؒ کی جو توجہ خاص ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کو ملی اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔
ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط انگریزی زبان وادب کے آدمی تھے، لیکن ان کی فکر اسلامی تھی ،عہد شباب سے ہی انہیں علماء اور بزرگان دین کے احوال وکوائف کے مطالعہ کا شوق تھا، اس شوق نے ان کی رہنمائی حضرت مولانا ؒ کی کتاب ’’سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری‘‘ تک کی، اس کے مطالعہ کے بعد ان کا ذہن تصوف کی طرف مائل ہوا، سوانح مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے مطالعہ سے تصوف کے رموز ونکات کے سمجھنے اور عملی طور پر برتنے کا شعور پیدا ہوا، حضرت مولانا علی میاں ؒ سے بیعت کا تعلق قائم ہوا، حضرت نے تصوف کے چاروں مشہور سلاسل تصوف قادریہ، چشتیہ،سہروردیہ، نقشبندیہ کے ساتھ حضرت آدم بنوری کے خاص سلسلہ ’’احسنیہ‘‘ میں بھی بیعت لیا، اور بعد میں ان تمام سلاسل میں خلافت عطا فرمائی اس خلافت کے پاس ولحاظ اور آخرت سنوانے کی فکر کی وجہ سے دم واپسیں تک ڈاکٹر صاحب نے سلوک وتصوف کے رموز ونکات کو سمجھنے اور برتنے میں لگا دیا، عمر کے آخری دور میں ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط کی ذکر وفکر کے ساتھ اصلاحی اور تربیتی مجلس لگا کر لی تھی، یہ مجلسیں عموما احمد عبد اللہ عثمانی کے گھر پر ہفتہ واری ہوا کرتی تھیں۔
مزاجی اعتبار سے آپ انتہائی نرم واقع ہوئے تھے، مسکراتا ہوا چہرہ گفتگو کا سلیقہ ، آواز میں نرمی ، لہجے کی مٹھاس، ریا ونمود ونمائش سے دور، ان کی عملی زندگی اور اصلاح حال کے لیے ان کے جذبے کی صداقت سے جو پیکر اور مجسمہ تیار ہوا وہ لوگوں کے لیے انتہائی پر کشش تھا اور لوگ ان کی طرف کھنچے ہوئے چلے آتے تھے۔
ڈاکٹرصاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایمانی، اسلامی، احسانی زندگی کے ساتھ انگریزی میں تصنیف وتالیف اور ترجمہ نگاری کا بہت اچھا ملکہ دیا تھا، چنانچہ انہوں نے حضرت مولانا علی میاں ؒ کی کئی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور مغربی دنیا تک اسے پہونچایا، انہوں نے سید احمد شہید ؒ کی اسلامی تحریک کا جامع تعارف انگریزی زبان میں ، سید احمد شہید-تحریک اور اثرات SAYYID AHMAD SHAHEED : LIFE MISSION AND COTRIBUTINS کے نام سے کرایا، اس کے علاوہ تعدد ازدواج ، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کی تعلیمات پر ان کی کتابیں مشہور ہیں، انہوں نے آخری عمر میں ایک جامع کتاب اپنے جد امجد حضرت شیخ سلطان مجددی لکھمنیاوی کی سیرت اوصاف اور تعلیمات پر لکھی جو ان کی آخری مطبوعہ کتاب ہے، اس کتاب پر مولانا محمد کلیم صدیقی پھلتی دامت برکاتہم کا مقدمہ ہے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ذاتی احوال واوصاف کے حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے، اس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں: ’’انہیں حضرت شاہ سلطان کے احفاد میں ہونے کی نسبت حاصل ہے اور اس سے زیادہ خود وہ تعلق مع اللہ اور سنت وشریعت کے معاملہ میں حد درجہ محتاط اور ورع وتقویٰ کے لحاظ سے بھی اس دینی وروحانی دولت کے نمونہ اور امین ہیں جو اس مجددی سلسلہ کا امتیاز ہے‘‘۔
ق