سماج میں نفرتوں کی بیج کون بو رہا ہے؟

ازقلم: محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر
رابطہ نمبر: 7667039936

میڈیا سماج اور معاشرے کی اصلاح و ترقی ، فلاح و بہبودی اور امن و آشتی کا ایک اہم ذمہ دار شعبہ ہوتا ہے۔ اس کے کاندھوں پر قوم و ملت کی سوچ اور فکر کا مدار ہوتا ہے۔ ان کی نشریات پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاتا ہے۔ یہ سماج کا قبلہ اور رخ طئے کرتا ہے کہ اسے ترقی کی راہ پر لے جانا ہے یا تنزلی کی راہ پر۔ اگر میڈیا اور نیوز چینلز امن پسند ہوں تو ان کے ذریعے امن و آشتی کو فروغ ملتا ہے اور اگر نفرت ، تعصب اور تنگ نظر ہوں تو نفرت و عداوت ، مذہبی منافرت اور تعصبات کو فروغ ملتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب سے میڈیا اور نیوز چینلز نے سرکار کی چاپلوسی کو اپنا نصب العین بنایا اور مذہبی افیون کے دلدادہ ہوئے ، ایک مخصوص مذہب اور کلچر کی بالا دستی کی خاطر دوسرے مذاہب بشمول اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا وہ بھی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی نشر واشاعت کے ذریعے اسی وقت سے ملک کی آب و ہوا باد سموم میں تبدیل ہو گئی اور آپسی پیار و محبت نے نفرت و عداوت کا دامن تھام لیا ۔

ابھی جے پور کے واقعہ کو دیکھ لیجئے کہ ایک مرکزی وزیر اور بی جے پی کے لیڈر گجیندر سنگھ شیخاوت اور بی جے پی کی آئی ٹی سیل نے ایک سال پرانے ویڈیو کو خوب وائرل کیا جس میں کچھ مسلم اور جذباتی نوجوان یتی نرسنگھا نند سرسوتی کو دھمکی دیتے اور سر تن سے جدا کا نعرہ لگاتے نظر آ رہے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین اور نیوز چینل والوں نے بغیر کسی تحقیق اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے انہوں نے کہنا اور واویلا مچانا شروع کر دیا کہ گہلوت کی سرکار سو رہی ہے اور پولیس کا کوئی اتا پتا نہیں اور دیکھئے صاحب کیسے نوجوان اشتعال انگیزی کر رہے ہیں ۔

نفرتوں کے اس مکروہ کھیل میں انڈیا ٹی وی والے کیسے اپنا حصہ چھوڑ سکتے تھے وہ بھی کود پڑے اور اس کو ادے پور میں کنہیا لال کے قتل کا نتیجہ قرار دے دیا۔ وہیں ایک دوسرا چینل آؤٹ لیٹ ، انڈیا ٹی وی سے دو قدم آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ ” راجستھان میں کنہیا لال پارٹ ٹو کی دھمکیاں” پھر مزید الزام لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ ملزم گزشتہ تین چار دنوں سے ایسی اشتعال انگیز ویڈیوز نشر کر رہا ہے۔

ان کی جھوٹ اور فریب کی دوکان اس وقت بند ہو گئی جب جے پور پولیس کے آفیشل ہینڈل نے شیخاوت اور میڈیا کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ وائرل وڈیو ایک سال پرانا یعنی 2021 کا ہے اور اس کے ملزموں کے خلاف اسی وقت کاروائی بھی کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ جے پور کے ڈی سی پی پارس دیشمکھ کو بھی سامنے آنا پڑا اور اس وڈیو کی تصدیق کی کہ یہ وڈیو ایک سال پرانا ہے اور انہوں نے سوشل میڈیا صارفین سے درخواست بھی کی کہ ایسے گمراہ کن وڈیو کو ہر گز شئیر نہ کریں ورنہ ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔

جس میڈیا اور نیوز چینلز پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں جو عوام کی آنکھوں اور کانوں کی نمائندگی کرتے ہیں آج وہ معاشرے اور سماج میں نفرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں ۔ ہندو مسلم کا کارڈ کھیل رہے ہیں ۔ مذہبی منافرت کی بیج بو رہے ہیں ۔ اور گجندر سنگھ شیخاوت ، کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسے متشدد ، تعصب پرست اور کھلے عام نفرتوں کے سوداگر حکومت کے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنی سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں ان کا ایک فلسفہ ہے جو بڑا کارگر ثابت ہوا ہے کہ ملک کے عوام کو مذہب کا افیون پلا دو پھر دیکھو کہ کیسے مذہب کا نشہ سر چڑھ کر بولے گا اور لوگ اپنی بنیادی مسائل کے لئے آواز اٹھانا بھی چھوڑ دیں گے اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے لوگوں پر خاص نظر رکھیں اور دیکھیں کہ سماج میں نفرتوں کی بیج کون بو رہا ہے ۔