ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ڈاکٹر مظفرالاسلام عرف ڈاکٹر عارف (ولادت ۱۰؍جنوری ۱۹۶۶ء) بن مولانا زین العابدین ،صدر شعبۂ علاج بالتدبیر گورمنٹ طبی کالج پٹنہ بہارساکن قاضی محلہ جالے ضلع دربھنگہ، حال مقیم نیو ملت کالونی سیکٹر ۲، پھلواری شریف، پٹنہ اس خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں، جس نے علوم و فنون ، خصوصاً فقہ و قضا کے حوالہ سے ہندوستان میںبڑا کام کیاہے، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒڈاکٹرصاحب کے حقیقی چچا اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم ان کے حقیقی بھائی ہیں، جو ہندوستان کے مایۂ ناز فقیہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں، اسی خانوادہ میں پلے بڑھے ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کو علم و تحقیق وراثت میں ملی ہے، البتہ انہوں نے اپنا میدان الگ منتخب کیا ،اپنی دنیا الگ بنائی اور اپنے فن میں ممتاز ہونے کی وجہ سے ۲۰۱۲ءمیں حکیم اجمل خاں ایوارڈ سے نوازے گئے ،طبابت اور حکیمی کا میدان بڑا وسیع ہے، ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کو علاج بالتدبیر کے معاملات و مسائل سے خصوصی دلچسپی ہے، وہ اس موضوع کو پڑھاتے بھی ہیں اور اس پر تحقیق بھی کرتے رہتے ہیں۔
’’علاج بالتدبیر‘‘ زیر مطالعہ کتاب کا نام بھی ہے اور موضوع بھی، اس کتاب کے مندرجات کے بارے میں مصنف کتاب نے لکھاہے: ’’اس کتاب میں طب کا تاریخی پس منظر، طب یونانی کی ابتدا، اصول علاج، یونانی نظریات، اسباب ستہ ضروریہ، علاج بالتدبیر میں استعمال ہونے والے قدیم طریقۂ کار، نیز عصر حاضر کے تقاضوں کے مدنظر ماڈرن آلات تدابیر اور ان کی تصاویر نیز سوالات و جوابات کو پیش کیاگیا ہے۔‘‘ (ص ۱۰۔۹)
کتاب ایک سو چھہتر(۱۷۶) صفحات پر مشتمل ہے، جس میں اٹھارہ(۱۸) صفحات مقدمہ، پیش لفظ،تقریظات اور حرف اولین پر صرف ہوئے ہیں، مقدمہ خود مصنف کتاب ڈاکٹر مظفر الاسلام عارف کا ہے، پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر تبریز اختر لاری،تقریظات پروفیسر ڈاکٹر غیاث الدین، ڈاکٹر جمال اختر، پروفیسر انیس الرحمن اور حرف اولین ڈاکٹر شاہد جمال کا ہے، ان میں دو گورمنٹ کالج پٹنہ کے پرنسپل، نائب پرنسپل اور چند لکھنؤ، الٰہ آباد(پریاگ راج) اور کولکاتہ یونانی میڈیکل کالج کے پرنسپل اور صدر شعبہ ہیں، ان حضرات نے اپنی تحریروں میں ہمیں بتایا ہے کہ اس کتاب کی اہمیت علم طب میں کیا ہے اور اس کتاب سے کس قدر طلبہ مستفید ہوسکیںگے، پروفیسر ڈاکٹر تبریز اختر لاری پرنسپل گورمنٹ طبی کالج و اسپتال پٹنہ کی رائے ہے کہ’’یوں تو اس عنوان کے تحت بہت سے ماہر فن نے اپنی تخلیق پیش کی ہے ؛مگر ڈاکٹر مظفر الاسلام کی یہ کاوش طبی اداروں میں شاہکار کی حامل ہوگی‘‘ (ص ۱۲)
ہم اپنے بچپن میںعلاج بالغذا، علاج بالادویہ اور علاج بالجراحت سے واقف تھے، دادا جان نے یاد کرایا تھا کہ جب تک کام چلتا ہو غذا سے / چاہیے بچنا دوا سے، جگر کے بل پر ہے انسان جیتا/ہو ضعف جگرتو کھا پپیتا اور جب غذا سے کام نہیں چلتا توتدبیریں شروع ہوتیں،اس زمانہ میں تدبیروں کے نام پر صرف یہ کیاجاتا تھاکہ بخار آجائے تو کھانا بند کردیا جاتا اور شام سے پہلے بخار اترنے پر بھی کھانا نہیں دیا جاتا، کھالیا تو سونے نہیںدیاجاتا کہ کہیں مریض کو سوتا دیکھ کر بخار پھر سے حملہ آور نہ ہوجائے،تیز بخار میں سر پر پانی کی پٹی ڈالی جاتی اور صاف کپڑے سے تلوے کو ہَولے ہَولے سہلایاجاتا ،زخم نکل آئے تو تُک ملنگا کی پٹی کا ستعمال ہوتا ،نزلہ زُکام میں جوشاندہ کا بھاپ کمبل اوڑھ کر لیا جاتا،مختلف امراض سے بچاؤ کے لئے پچھنا لگایا جاتاجس کا داغ زندگی بھر ساتھ رہتا،سر میں جوئیں پڑ جائیں یا سر بہت گندا ہو تاتو علاج بالتدبیر کے طور پر کالی مٹی سے سر دھویا جاتا، قبض ہوگیا تو صابن کا حقنہ دے دیاجاتا، اس سے زیادہ کی عموماً ضرورت ہی نہیںپڑتی تھی اور آدمی انہیں تدابیر سے روبصحت ہوتا اور پھر اللہ کا مقرر کردہ وقت نہ آیا ہو تو مکمل صحت یاب ہوجاتا، ڈیڑھ دہائی پہلے تک اس دور کے حکماء بھی اس طریقۂ علاج کی طرف توجہ کم دیتے تھے، ۲۰۱۱ء سے طبیہ کالجوں میںعلاج بالتدبیر کے متعلق شعبے قائم ہوئے، تب لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز ہوئی اور اس کی اہمیت تسلیم کی گئی۔
ڈاکٹر مظفرالاسلام صاحب کی کتاب سے معلوم ہواکہ علاج بالتدبیر قدیم طریقۂ علاج ہے، جو طب یونانی میں اہم طریقۂ علاج سمجھاجاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مرض کو دور کرنے کے لیے دوائیاں کم استعمال کی جائیں اور تدابیر زیادہ کی جائیں جو بغیر تکلیف کے مریض کو صحت یاب کردے۔
ڈاکٹر مظفر الاسلام صاحب نے اس کتاب میں تنتیس(۳۳) عنوانات کے تحت علاج بالتدبیر کے مختلف مراحل، ان کے اقسام وغیرہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ہر اصطلاحی لفظ کا متبادل انگریزی لفظ بھی لکھا ہے، جس سے اصطلاحات کے سمجھنے میں مدد ملے گی،تعریف کی زبان بھی سہل ہے اس کے باوجود عام قاری کا سمجھنا اسے مشکل ہوگا، اس کتاب سے وہی لوگ استفادہ کرسکتے ہیں جو طب یونانی کے یا تو استاذ ہوں یا طالب علم؛کیوں کہ کسی نہ کسی درجہ میںمبادیات سے ان کی واقفیت ہوتی ہے اور میرا ماننا ہے کہ کتاب کو سمجھنے کے لیے پہلے سے بنیادی واقفیت ضروری ہے،نہ ہو تو مندرجات دماغ کے اوپر سے گزرجاتے ہیں، یہ کتاب کا نقص نہیں، علمی معیار ہے، خود مصنف نے مقدمہ میںواضح کردیا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل فائدہ طلبۂ طب کو ہوگا، مگر علاج و معالجہ سے وابستہ افراد کے لیے بھی بیماریوں کو طب جدید کے نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔‘‘
چلئے اپنا تو معاملہ صاف ہے، یہ کتاب ہم جیسوں کے لئے ہے ہی نہیں، جن کی قسمت میں معالج بننا لکھا ہی نہیں ہے، صرف مریض بننا مقدر ہے اور معالجین کا تختۂ مشق بننا۔
کتاب کا انتساب ڈاکٹر صاحب نے والدین مرحومین کے نام کیا ہے، جن کی دعاؤں اور محنتوں کے نتیجے میں علم کا سلسلہ جاری رہا، انتساب کے نیچے جو شعر درج ہے کہ’’اے کاش پڑھ سکیں وہ ورق اس کتاب کے، خواہش نیک کے طور پر تو صحیح ہے؛ لیکن مرحومین کے پاس کتاب کے اوراق پڑھنے کے لیے وقت اور صلاحیت ہی کہاں ہوتی ہے؟
کتاب کی اشاعت قاضی مجاہد الاسلام لائبریری اینڈ ریسرچ سنٹر نیوملت کالونی پٹنہ سے ہوئی ہے۔ کاغذ، کمپوزنگ، پرنٹنگ اچھی اور ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ اگر آپ پٹنہ میںرہتے ہوں یا ڈاک سے منگوانا چاہتے ہوں تو مصنف کے پتہ سے منگوا سکتے ہیں جو اوپر درج ہے۔ بشرطیکہ آپ ضرورت مند ہوں اور ایک سو چھہتر صفحات کی قیمت تین سو روپے آپ کو زائد نہ معلوم ہو۔