تحریر: محمدقاسم ٹانڈؔوی
نواسۂ رسولؐ، جگر گوشہ سیدہ بتولؓ، امام عالی مقام سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تاریخ اسلامی و انسانی کی وہ عظیم ترین شخصیت ہیں، جن کی عظمت و رفعت کا سکہ اپنوں کے علاوہ غیروں نے نہ صرف تسلیم کیا ہے؛ بلکہ ان کے اوصاف و کمال کو اپنے حصول مقاصد کے واسطے نشان راہ اور لائق عمل بنایا ہے۔ اور وہ اس لیے کہ سیدنا حضرت امام حسینؓ کی پوری زندگی صدق و وفا، امانت و دیانت، خلوص و محبت سے لبریز اور دین و شعائر دین کی حفاظت میں سرگرداں رہ کر گزری ہے، اس دوران آپؓ نے اپنے نانا جان اور والدین مکرمین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر اس مشکل و دشواری کا خندہ پیشانی کے ساتھ سامنا کیا، جن کے پیش آنے پر بیشتر حضرات کم ہمتی اور شکست خوردگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے مشن کو اثناء راہ چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہیں؛ مگر قربان جائیں خانوادۂ نبوت و رسالتؐ کے اس فرزند عظیم کی ہمت و شجاعت پر جس نے نانا جان کے دین متین کے تحفظ و بقا کی خاطر سر کٹانا تو منظور کیا، لیکن باطل پرستوں کے آگے اپنا سر جھکانا پسند نہیں کیا۔ چنانچہ دولت و شہرت کے دلدادہ، عہدہ و مرتبہ کے خواہش مندوں اور سلطنت و حکومت کے بھوکے و لالچیوں کے رو برو ہو کر دین حق کی تعلیمات اور شعائر اسلام کی حفاظت پر کسی بھی قسم کی سودے بازی کرنے سے انکار کر دیا۔
اور دین کی سودے بازی سے کیوں نہ آپؓ انکار کرتے اور کیوں نہ دشمنان نبی (ﷺ) سے آپؓ پنجہ آزمائی کےلیے ہمہ تیار ہوتے؛ جبکہ آپ کی رگوں میں جو خون دوڑ رہا تھا وہ سرور کائنات، محسن انسانیت، فخر رسل حضرت محمد مصطفی (ﷺ) اور اسلام کے خلیفہ رابع، شیر خدا، فاتح خیبر سیدنا حضرت علیؓ نیز خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ کا دوڑ رہا تھا، آپؓ حضرت امام حسنؓ کے چھوٹے بھائی تھے؛ جو خود ایک فولادی طاقت کے حامل نوجوان تھے، جن کی ہمت و شجاعت کے قصے آج بھی زبان زد عام و خاص ہیں۔
الغرض! آپؓ ہر اعتبار سے عظیم تر نسبتوں کے حامل اور قابل فخر و ناز عظمتوں کی ایک بےمثال شخصیت ہیں؛ آپؓ کے اس اعلیٰ نسبی اور حیات طیبہ کا جو نقشہ پروفیسر اختر الواسع صاحب نے کھینچا ہے، اسے ملاحظہ فرمائیں:
"وہ (حضرت امام حسینؓ) ایسی ہستی تھے کہ عالی نسبی کو ان پر ناز تھا، وہ ایسے جواں مرد تھے کہ ان کی بہادری اور جواں مردی کے قصّے ہر زمانے میں گائے جاتے ہیں اور اسی طرح گائے جاتے رہیں گے، حضرت امام حسینؓ کی زندگی بلاشبہ ایک مینارۂ نور تھی، ایک عظمت کی نشان تھی؛ یوں تو ان کی پوری زندگی ہی بےمثال ہے۔ ان کا بچپن آغوش رسالتؐ میں گزرا، ان کی جوانی جاں نثاران رسولِ اکرمؐ کی نگرانی میں بسر ہوئی اور (چونکہ آپؓ) حضرت علیؓ کے بیٹے تھے اس لیے پوری اسلامی دنیا کے شہزادے بھی تھے۔ وہ ایک طرف دین میں امام تھے، دوسری طرف دنیا میں بھی ان کی عظمتیں بلندیوں کو چھو رہی تھیں۔ ظاہری اسباب میں وہ دین و دنیا دونوں اعتبار سے مثالی اور آئیڈیل تھے، جنابِ حضرت امام حسینؓ صرف رسول اللہ (ﷺ) کے نواسے اور چوتھے خلیفہ کے بیٹے ہونے کی وجہ ہی سے عظیم نہیں تھے؛ بلکہ ان کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کو اپنی دینی ذمہ داریوں کا پورا احساس تھا”۔
پروفیسر اخترالواسع صاحب نے اپنے اس مختصر سے پیراگراف میں آپؓ کی پاکیزہ زندگی اور زندگی کے مقصد کا جو نقشہ کھینچا ہے، اسے سمجھنے کےلیے کوئی زیادہ ہندی کی چندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے نانا جان اور مشفق و مکرم والدین کے زیر تربیت رہ کر جس دین کی بربادی کا درد و غم کھائے جا رہا تھا، اسی درد و کرب کے احساس نے دنیا کو وہ دن دکھلایا جو میدان کربلا میں آپ کی اور آپ کے دیگر 72/اصحاب کی شہادت کا سبب اور اس جانکاہ حادثے کی وجہ بنا۔ چونکہ آپؓ کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ مسند نشیں لوگوں کی طرف سے ظلم و بربریت کا جو بازار گرم کیا جارہا ہے، اور جس انداز سے عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ دین اسلام نے تمام لوگوں کو اخوت و مروت اور ہمدردی و غمگساری کا پیغام سنایا تھا، مگر گدی نشیں حکمرانوں کی طرف سے اس پیغام کو پس پشت ڈالا جا رہا تھا اور بےبس عوام پر حکمرانوں کا ظلم و تشدد پروان چڑھنے کے سبب معاشرہ اس راہ پر چل نکلنے کو تیار تھا، جس راہ کو بند کرنے اور ختم کرنے کےلیے ہی اسلام کا ظہور و نزول ہوا تھا۔ ایک تو عوام کا استحصال اور دوسرے باہمی اقدار و روایات کی توہین و بربادی کو دیکھ کر سیدنا حضرت امام حسینؓ نے مدینہ سے کوفہ تک کا سفر طے کرنے کےلیے اپنے اندر جو جذبہ اور عزم مصمم پیدا کیا، اس کا انجام بعد میں یہ ظاہر ہوا کہ "میدان کربلا میں آپ کی طرف سے پیش کی گئی جان کی قربانی تاریخ انسانی میں عظمت و ایثار کی ایک بےمثال یادگار بن گئی اور اس طرح آپؓ کی جاں نثاری و ستودہ صفات بعد کے آنے والوں کے واسطے نشان راہ اور میل کا پتھر ثابت ہوتی گئی، اور آئندہ بھی جو طبقہ اور فرقہ آپ کی اس روش اور طریقے پر گامزن ہوگا وہ ایسے ہی سرفراز و کامیاب ہوتا رہےگا۔ اس کے برعکس جو ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں اور اپنے ماتحت عوام کے جذبات و کردار سے کھلواڑ و مذاق کرتے ہیں؛ انہیں تاریخ اپنے دامن غیظ و غضب اور بےایمانی میں جگہ فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے اس سفر کی حکومت کو جس وقت خبر ہوتی ہے تو حکومت آپؓ کے اس سفر کو اپنےلیے خطرہ سے تعبیر کرتی ہے، اور حکومت وقت اور اس کی اعلی قیادت اپنی فوجی طاقت کے نشے اور گھمنڈ میں شرابور ہو کر آپؓ کے اس خیر سگالی پر مشتمل سفری کوشش و ارادہ کو کچل دیتی ہے اور ہمیشہ ہمیش کےلیے اس مرد حریت اور نوجوانان جنت کے
سردار کی صدا کو خاموش کر دیتی ہے؛ لیکن ہر ظالم و جابر کو بوقت ظلم و ستم اس بات کا خیال ہرگز نہیں ہوتا کہ: "ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے،
خون جب گرتا ہے تو جم جاتا ہے”۔
ایسے ہی انمٹ نقوش اور سنہری مواقع کےلیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!
چنانچہ تاریخ انسانیت اور عبرت کی نگاہوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ جو خانوادۂ نبوت کے اس چشم و چراغ اور ہوشیار و ہونہار فرزند اختر کو مٹا دینا چاہتے تھے، آج دنیا میں کوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں ہے اور اگر کوئی لیتا بھی ہے تو ملعون و مردود اور فسق و فجوری کے لاحقہ کے ساتھ لیتا ہے۔ اسی واقعہ سے یہ پیغام بھی موصول ہوتا ہے کہ جو دوسروں کو مٹانے اور برباد کرنے کا من رکھتے ہیں، قدرت خود ان کو بےنام و نشاں کر دیتی ہے اور صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔ جگر گوشۂ بتولؓ، نواسۂ رسول (ﷺ) اور حیدر کرارؓ کے فرزند ارجمند حضرت امام حسینؓ کا نام نامی آج بھی تاریخ کے اوراق میں جلی حروف کے ساتھ درج ہے، اور پوری دنیا اہتمام و احترام کے ساتھ شہزادوں کے مانند پکار رہی ہے اور امام عالی مقام کا یہ نام اور ان کا اسوۂ بےمثال تاقیامت پکارا جاتا رہےگا اور جو آپؓ کی حرمت و تقدس کو پامال و مجروح کرنے میں شریک و سہیم رہے ہیں، وہ ایسے ہی ذلیل و رسوا اور بےآبرو ہوتے رہیں گے۔
دنیا آج بھی امن و امان کی متلاشی ہے، اور جنگ و جدال سے دور رہ کر گزر بسر کرنا چاہتی ہے؛ لیکن امن کا حصول محال اور قتال و جدال کا ماحول ہر جگہ بنا ہوا ہے، ایسے میں جو لوگ امن کے متلاشی ہیں، وہ تپتے صحرا میں سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ واقعی امن و امان چاہتے ہیں اور لوگوں کے تئیں حساس ہیں کہ دیگر لوگ بھی امن و سلامتی کے ساتھ رہنے والے ہو جائیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے اندر کی انا اور ضد و ہٹ دھرمی کو دور کرنا ہوگا، اس لیے کہ پیٹرول آگ کو مزید بھڑکانے کا کام انجام دیتا ہے، آگ کو بجھانے کا نہیں۔ اور اس سمت دنیا کو کامیابی اسی وقت مقدر ہوسکتی ہے، جب تک وہ خود کو اسوۂ حسینی کے ڈھانچے میں نہ ڈھال لیں اور اپنی طبیعت کو صبر و تحمل کا خوگر و عادی ویسے ہی نہ بنا لیں، جیسا کہ حضرت امام حسین (رضیﷲ عنہ) نے خود کو صبر کا مجسمہ بنایا تھا اور اپنے گھر کے صغیر و کبیر، مرد و زن کے ہمراہ میدان کربلا میں شہادت نوش فرما لی تھی۔