استاذ ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر

ازقلم: فرقانہ علیم، دربھنگہ

رہبربھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاذ یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ استاذ ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ استاذ ہی وہ عظیم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور و منبع ہے ۔استاذ ہی وہ قندیل ہےجو ظلمتوں کی راہوں میں علم کی شمع روشن کرتا ہے ۔استاذ ہی وہ زینہ ہے جو رفعتوں کا سفر طےکراتاہے ۔ استاذ ہی وہ رہنما ہے جو قوم کے نوخیزوں کی آبیاری کرکے اسے مہذب و ذمہ دار انسان بناتا ہے اور اس کی تعلیمی اور اخلاقی و روحانی تربیت کرتا ہے ۔ استاذ ہی وہ پھول ہے جو امن و محبت کا سبق پڑھا کر قلب و روح کو علم و آگہی کی خوشبو سے معطر کرتا ہے ۔ استاذ ہی وہ رہبر ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق سمجھاتا ہے ۔ استاذ ہی کائنات کی وہ عظیم ہستی ہے جو قوموں اور نسلوں کو سنوارتا ہے۔ استاذ ہی محبت و شفقت اور لگن و دلجمعی سے بے وقعت پتھر جیسے ذہنوں کو علم سے منور کر دیتا ہے۔ نیز اپنی علمی ہنرمندی سے تراش خراش کرطلبہ کو ملک و ملت کے لیے لعل و گہر بنا دیتا ہے۔

سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کردیا
شمعِ علم و آگہی سے دل منور کردیا
خاکہ تصویر تھا میں خالی از رنگ حیات
یوں سجایا آپ نے مجھ کو قیصر کر دیا

یوں تو دنیا کے ہر مذہب میں استاذ واجب التعظیم ہے، مگر مذہبِ اسلام میں استاذ کو بےحد عزت و احترام حاصل ہے۔قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے نبی اکرمﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصدیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ بتایا ہے کہ آپﷺ کی حیثیت ایک معلم کی ہے جو لوگوں کوکتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔[البقرة:129] خود نبی اکرمﷺ نے إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا .”مجھے معلم بناکر بھیجا گیا” فرما کر اساتذہ کی رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔
استاذ کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی نے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کاش میں معلم ہوتا"
حضرت علی رضی عنہ نے فرمایا : "جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں وہ چاہے تو آزاد کرے یا فروخت”
یہ قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔کسی مذہب نے استاد کی حقیقی قدر ومنزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نےانسانوں کو استاد کے بلند مقام ومرتبہ سے آگاہ کیا ہے ۔ اسلام نے استاذ کو مشفق و مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کا درجہ دیا ہے ۔جسد خاکی کی نگہداشت و بود و باش والدین کی ذمہ داری ہے جب کہ روح انسانی کے ثمر دار پودے کو خون جگر دے کر سینچنے والی ہستی کا نام استاذ ہے ۔ سکندر کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ میرے والدین نےمجھے آسمان سے زمین پر اتارا جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔

شاگردی علم کے حصول کے لیے چابی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ طالب علم کی کامیابی کی علامت ہے ۔ جو شخص معلم کے بغیر علم حاصل کرتا ہے اس سے کسی خیر کی امید نہیں ہے، اور اس معاملے میں علوم شریعت کا حال بھی دیگر علوم و فنون کے مانند ہے۔لہذا جس طرح اس ڈاکٹر پر کوئی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جس نے ماہر ڈاکٹر کے پاس رہ کر علم حاصل نہ کیا ہو،اور اس سرجن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا جس نے ماہر سرجن سے مشق نہ کی ہو ،نیز اس انجینئر پر بھی کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا جس نے علمی و عملی طور پر کسی ماہر انجینئر کے پاس رہ کر فن میں مہارت حاصل نہ کی ہو، یہی حال دیگر علوم و فنون کا ہے ۔

دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر

کامیاب ترین استاذ وہ ہے جو طلبہ کا نفع ہمیشہ پیش نظر رکھے اور زیادہ سے زیادہ علمی مادہ ان کی طرف منتقل کرے ۔ استاذ اپنے طویل تدریسی تجربے کی روشنی میں مشکل سے مشکل اسباق کو آسان سے آسان کرکے طلبہ کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کرے۔ مہذب، توانا پرامن و باشعور معاشرے کا قیام استاذ ہی کی مرہون منت اس لیے قول و فعل میں مطابقت رکھے۔ جو استاذ اپنے علم پر پہلے خود عمل کرے تبھی طلبہ اس کی باتوں پر عمل کریں گے، کسی دانا کا قول ہے کہ: عالِم جب اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کی نصیحتیں دلوں سے اس طرح پھسل جاتی ہیں جس طرح سخت چٹان سے بارش کے قطرے پھسل جاتے ہیں ۔استاد کو حْسنِ اَخلاق کا پیکر ہونا چاہئے ،تاکہ ذہین وغیر ذہین تمام طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں۔ اساتذہ کی طرف سے حوصلہ افزائی طلبہ کے اندر خوداعتمادی اور ذوق و شوق پیدا کرنے میں بہت زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے ،جب کہ حوصلہ شکنی اور بات بات پر طعن و تشنیع طالب علم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ اساتذہ کو بہرحال اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے قول و عمل سے طالب علم کا حوصلہ نہ ٹوٹنے پائے۔

"معلم” چار حرفی لفظ اپنے اندر انتہائی خوبصورت مفاہیم سمیٹے ہوئے ہیں
مثلاً: ” م” سے محبت و مہربانی
"ع” سے علم و عمل
"ل” سے لگاؤ اور م سے مدد و معاون ۔

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو انسانی تاریخ اساتذہ کے احترام و تکریم کی سنہری داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیا بادشاہ، کیا شہنشاہ کیا ولی، کیا صحابہ کرام سبھی نے اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کی بہترین مثالیں رقم کی ہیں ۔
مناقب شافعی میں حضرت امام شافعی ؒ لکھتے ہیں کہ میں نے حضرت امام مالکؒ کی بےمثال جلالت علمی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو میرا دل آپ کے ادب و احترام سے بھر گیا حتی کہ میرا یہ حال تھا کہ آپ کی مجلس میں حاضری کے وقت اگر کتاب کا صفحہ الٹنا ہوتا تو میں آپ کے رعب کی وجہ سے بہت آہستہ سے صفحہ پلٹتا کہ بالکل آواز نہ ہو۔
حضرت امام شافعیؒ کے خاص شاگرد ربیع بن سلیمان ؒ فرماتے ہیں کہ میں ادب کی وجہ سے امام شافعی کے سامنے پانی پینے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ (معالمہ ارشادیہ 127)
سال 1923ء میں جب برطانوی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر علامہ اقبال کو سر (Sir) کا خطاب دیا جانے لگا تو فرمانبردار اور استاد پرست محمد اقبال نے مطالبہ کیا کہ اُن کے استاد (مولوی میر حسن) کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے دوسری صورت وہ سر (Sir) کا خطاب قبول نہیں کریں گے۔ مگر انگریز گورنر جنرل مُصِر تھے کہ اُنہوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی ہے، جس کے پیش نظر انہیں متذکرہ خطاب نہیں دیا جاسکتا ! تب علامہ اقبال نے کہا: "میں بذات خود اُن کی تصنیف ہوں”۔ اِس جواب پر برطانوی حکومت کو مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینا ہی پڑا۔ واقعی یہ ہیں آداب و احترام جو ہم سب کے لیے روشن نمونہ ہیں جن کی حتی الامکان پیروی کرنی چاہیے ۔ لیکن آج المیہ یہ ہے کہ جو محبت اور تعظیم کا رشتہ تھا ،جو خلوص اور تعلق خاطر پر مبنی تھا، وہ کاروباری سطح پر آگیا۔ جب سارا ماحول مادیت سے متاثر ہوا تو متعلم بھی، یعنی ایک طالب علم کی منطق یہ ہوئی کہ میں نے اسکول کالج میں داخلہ لیا ہے ، فیس ادا کرتا ہوں۔ اس لیے مجھے حق ہے کہ میں کلاس روم میں بیٹھوں اور لکچر سنوں۔ میں کسی استاد کا رہین منت اور احسان مند نہیں ہوں اور دوسری طرف آج کے معلم یعنی استاد بھی اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ ہم سب علم محض اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ کسبِ معاش کرسکیں۔ جس کی وجہ سے علم کے لیے جو ایک لگن اور پیاس ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہ پائی۔

امام ابو حنیفہؒ سے کسی نے سوال کیا کہ استاد کیسا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ استاذ جب طالب علموں کو پڑھا رہا ہو تو غور سے دیکھو، اگر ایسے پڑھا رہا ہے جیسے اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاذ ہے، اگر لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاذ نہیں ہے۔

کائنات کی ان عظیم ہستیوں اساتذہ کے لیے محض ایک دن مختص کردینا اورملکی سطح پرہرسال 5/ ستمبر کے دن کو اور عالمی سطح پر 5/اکتوبر کے دن کو ٹیچرس ڈے کے طور پر منانامیرے خیال سے یہ ان اساتذہ کی محنت و لگن ،خلوص و للہیت کے ساتھ ناانصافی ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اساتذہ کے مقام و مرتبہ کو سمجھیں، دل سے عزت و احترام کریں اور سال میں صرف ایک دن اساتذہ کے لیے خاص نہ کرکے اسلاف و اکابرین کے نہج پر چلنے کی کوشش کریں جس جذبہ کے تحت ایک طالب علم اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاؤں پھیلانا تک گوارا نہیں کرتے ہیں اور بعد میں دنیا اسی کو حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے نام سے جانتی ہے ۔ یقیناً ان حضرات کی رہنماۂی زیادہ مؤثر ثابت ہوگی ۔