ازقلم: کلثوم پروین
درجہ عالمہ ثالثہ جامعہ امّ الہدی پرسونی مدہوبنی بہار
روزِ اول سے دینِ اسلام کاتعلیم وتعلم سےگہرارشتہ رہا ہے،حضرت نبی اکرم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں جو تعلیم وتعلم سے ہی ہم رشتہ ہیں۔ان آیات کے نزول کے ساتھ ہی حضرت نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر میں "دار ارقم” کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا۔ جہاں نووارد اورمقامی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صبح و شام کے اوقات میں حصولِ علم کے لیے مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے،خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسی مدرسہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، یہ اسلام کا سب سے پہلا غیراقامتی مدرسہ تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے”مسجد نبوی”تعمیر فرمائی،جس کے ایک جانب آپﷺ نے "صفہ” نامی مدرسہ قائم فرمایا،جو دراصل ایک چبوترا تھا، آپﷺ یہاں تشریف فرما ہوتے،اور مقامی و بیرونی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے۔ یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا۔مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ عصرِ حاضرکے مدارس اسلامیہ کارشتہ دراصل حضرت نبی اکرم ﷺ کے قائم کردہ ان ہی دونوں مدرسوں سے وابستہ ہے، یہ مدارس اسلامیہ دینِ اسلام کے وہ مستحکم قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ اورقال الرسول کی عطر بیز پاکیزہ صدائیں گونجتی ہیں،جہاں کے طلبہ ،اساتذہ ،علماء اور مشائخ علومِ نبوی کے وارث وامین ہیں ، یہ مدارس اسلامیہ اسلام اوراہلِ اسلام کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتے ہیں،جہاں نسلِ نو کو اسلامی علوم واقدار سے آگاہ کرتے ہیں، وہیں مسلم معاشرہ کومشرکانہ عقائد و رسومات سے بچاتے ہیں،جہاں قرآن و سنت، عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت کرتے ہیں، وہیں مساجد و مدارس کے لیے ائمہ اورمدرسین فراہم کرتے ہیں۔جہاں یورپ کی نظریاتی اور تہذیبی یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی عقائد اور دینی طرزِ معاشرت کی حفاظت کرتے ہیں،وہیں جدید عقلیت کے پیدا کردہ اعتقادی و نظریاتی فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔الغرض مدارس اسلامیہ کا وجود ہندی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم نعمت خداوندی ہے۔مگرافسوس صدافسوس کہ آج وطنِ عزيز میں ان ہی مدارس اسلامیہ کو شک کی نگاہ سے دیکھاجارہاہے ،ان کے وجود کو ختم کرنے کی خفیہ سازشیں رچی جارہی ہیں ،حالیہ دنوں میں اتر پردیش کی یوگی حکومت نے جب سے مدارس اسلامیہ کے سروے کرانے کا فیصلہ سنایا ہے، پورے ملک میں اضطراب وبے چینی اور فکر وتشویش کی لہر دوڑ گئی ہے،دارالعلوم دیوبند اور جمیعة علماء ہند کے پلیٹ فارم سے اس مسئلہ پر غوروخوض اور آئینی حل نکالنے کے لیے کانفرنسیں ہوئیں اور ہورہی ہیں، ان ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں پر اجتماعی ملّی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ ان مدارسِ اسلامیہ کی طرف ہمہ جہت متوجہ ہوں،ان سے اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر بنائیں،اوردستورِہند کے دائرے میں ان مشکل حالات کاحل نکالیں،وگرنہ خدانخواستہ اگر ہندوستانی مسلمان ان دینی مدرسوں سے محروم ہو گئے تو ان کا حال بالکل اسی طرح ہو جائے گا، جیساکہ اندلس میں مسلمانوں کا ہوا کہ آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سواوہاں اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نظر نہیں آتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دہلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نظر نہیں آئے گا۔ لاقدّرالله اللہ تعالی مدارسِ اسلامیہ اور محبینِ مدارس اسلامیہ کی کامل حفاظت فرمائے آمین