کیا مدارس کا نصاب اور نظام تعلیم اطمینان بخش نہیں ؟


مدارس کا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم ماضی میں بھی اطمینان بخش تھا اور آج بھی قابل اطمینان ہے ، یہ میرا ماننا ھے ، اور میرا تجربہ بھی ہے ، اصل بات یہ ھے کہ ہم مدارس کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں ،اس لئے اس میں کمی ہی کمی نظر آتی ہے ,
مذکورہ باتوں کو سمجھنے کے لئے مدارس کے قیام کی وجہ پر غور کرنا چاہئے ، مدارس کے قیام کا مقصد شروع ہی سے یہ رہا ہے کہ اس میں بنیادی طور پر اس تعلیم کا انتظام کیا جائے گا ،جس سے دین و شریعت کی حفاظت ہوسکے ، اور اس سے فارغ ہونے والے امت مسلمہ کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کر سکیں ، مدارس سے مولانا ،عالم ،فاضل ، مفتی ،فاضل ، امام ،خطیب اور ماہرین دین و شریعت بن کر نکلیں ، جو ملت و امت کی دینی ضرورت پوری کر سکیں ، چونکہ مسلم امت اور ملت کو اس کی ضرورت ہے کہ ان میں ایسے افراد ہوں ،جو دین و شریعت میں ان کی رہنمائی کر سکیں ، ایسا نہیں کہ صرف مسلم سماج کو اس کی ضرورت ہے ، بلکہ ملک کے بسنے والے تمام مذہبی طبقات کو اس کی ضرورت ھے ، یہی وجہ ھے کہ برادران وطن میں بھی مذہبی تعلیم کے لئے تعلیم گاہیں الگ الگ ہیں ، ہندو دھرم کے پاٹھ شالے اور بڑے مذہبی ادارے ہیں ، جہاں سے بڑے بڑے پنڈت نکلتے ہیں ، عیسائی ، بودھ اور جین کے اپنے اپنے مذہبی تعلیمی ادارے ہیں ، ان سے ان کے مذہب کے ماہرین پوپ اور دیگر مذہبی پیشوا نکلتے ہیں ، ہمارا ملک سیکولر ھے ، آئین سے چلتا ھے ، ملک کا آئین اس طرح کے مذہبی اداروں کو چلانے کی اجازت دیتا ھے ،
مدارس بھی مذہبی ادارے ہیں ، ان میں ضرورت کے مطابق عصری تعلیم دی جاتی ھے ، مگر اس کا فوکس اس پر ھوتا کہ ان اداروں میں ایسے افراد تیار کئے جائیں ، جو دین و شریعت سے تعلق رکھنے والے علوم و فنون میں ماہر ہوں ، تاکہ وہ دین کی رہنمائی کر سکیں ، مساجد میں امام و خطیب ہوں ، قاضی اور مفتی ہوں ، مدارس کا نصاب تعلیم اسی اعتبار سے مرتب کیا گیا ،اس نصاب تعلیم میں عصری مضامین بھی ہیں ، مگر فوکس اسلامی علوم فنون پر ھے ، میرے مطالعہ اور تجربہ کے مطابق مدارس اپنے مقاصد میں کا میاب ہیں ، ان کے فارغین میں تقریبا 50/ فیصد اعلی صلاحیت کے ،25/ فیصد اوسط صلاحیت کے اور 25/ فیصد ادنی صلاحیت کے حامل ھوتے ہیں ، آج واٹس ایپ گروپ میں بڑی تعداد میں فارغین مدارس موجود ہیں ، کیا وہ مدارس میں تعلیم حاصل کرکے قابل نہیں بنے ؟ ان میں کس چیز کی کمی ھے ؟ کیا وہ ملت کی دینی ضرورت پوری نہیں کر رہے ہیں ،؟ کیا وہ ملک کے مسائل سے دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ؟ کیا یہ دنیا کی خبر نہیں رکھتے ہیں ؟ غرض جس مضمون میں وہ مہارت حاصل کرتے ہیں ، وہ اس میں ماضی میں بھی کامیاب تھے اور آج بھی کامیاب ہیں ، دوسرے مضامین میں کمی ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ھے کہ مدارس کا نصاب اور نظام تعلیم فرسودہ ہے ، میرے خیال سے یہ فکر صحیح نہیں ھے ، آج تخصص کا دور ھے ، ایک آدمی ہر فن میں ماہر نہیں ہوسکتا ہے ، ہر فن کے لئے تعلیم الگ الگ ھے ، ڈاکٹر بننے کے لئے نصاب الگ ھے ، انجینئیر بننے کے لئے نصاب الگ ھے ، اس طرح عالم ، مفتی اور قاضی بننے کے لئے نصاب الگ ہے تو تعجب کی بات کیا ھے ؟ کو ڈاکٹر سے نہیں پوچھتا کہ آپ انجینیر کیوں نہیں ہیں ، مگر ہر کوئی مولانا ،مفتی اور قاضی کو انجینئیر اور علوم عصریہ کا ماہر دیکھنا چاہتا ہے ، یہ ایک غلط فہمی ھے ، جس کو دور کرنے کی ضرورت ھے ، ہمیں اپنے اور دوسرے سب کو بتانے کی ضرورت ھے کہ ہر ایک تعلیم کے شعبے ہیں ،اور ہر ایک الگ الگ ہیں ،
ہمیں مدارس اور ان کے ذمہ داروں کا احسان مند ہونا چاہئے کہ مدارس نے ہمیں اس قابل بنادیا کہ ہم کچھ سوچ سمجھ سکیں ، اور اچھی زندگی گذار سکیں ، جہانتک مزید کی بات ھے تو راستے ہمیشہ کھلے رہے کہ فراغت کے بعد یا درمیان میں اسکول کالج کا راستہ اختیار کرلیں ،
البتہ مدارس نظامیہ کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ مدارس نظامیہ کا نصاب تعلیم صرف 8/ سال پر مشتمل نہیں ھے ، جیسا کہ مشہور کردیا گیا ھے ، بلکہ ہمیشہ سے ابتدائی درجات کا نظام بھی رہا ھے ، جن میں اردو ،فارسی اور دیگر علوم عصریہ کی تعلیم دی جاتی رہی ھے ، یہی وجہ ھے کہ مدارس سے بڑے ماہرین ریاضی دان ، حکماء وغیرہ پیدا ہوئے ، یہ ابتدائی درجات مدارس میں آج بھی چل رہے ہیں ، ان کو منظم کرنے کی ضرورت ھے ، جہاں منظم ہیں تو ان مزید بہتر کیا جائے ، اور جہاں کمی ھے ان کو پورا کیا جائے ، اور میٹرک تک کیا جائے ، تاکہ فارغین مدارس کے لئے آگے کے راستے بھی ھموار رہیں ,
میرے مطالعہ اور تجربہ کی روشنی میں یہ مدارس امت مسلمہ کی بڑی ضرورت پوری کر رہے ہیں ، ان میں مسلم سماج کے صرف 4/ فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، اس طرح یہ مسلم سماج کے لئے بڑی ضرورت بھی ہیں ، اس لئے ان کی حفاظت وقت کی بڑی ضرورت ہے ، ہمیں اس کی حفاظت کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ھے ، اگر کہیں کچھ کمی ھے تو اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ھے ، دنیا میں بہت سے بڑے بڑے ادارے چل رہے ہیں ، مگر کوئی ان جنرل اداروں کے بارے میں کوئی تنقید و تبصرہ نہیں کرتا ھے ، مگر یہ مدارس ہیں کہ پوری دنیا میں سب کی نظر ان ہی پر ھے ، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے ، خدا نخواستہ اگر ہم ان سے محروم ہوگئے تو ایک بڑی نعمت سے محروم ہو جائیں گے ، ہمارا نقصان تو ذاتی ہوگا ، مگر امت مسلمہ کا بڑا نقصان ہوگا
ہاں ! حکومت کی جانب سے سروے کروائے جاتے ہیں ، یہ حکومت کی پالیسی کا ایک حصہ ہے ، اس سے حکومت کو پالیسی بنانے میں مدد ملتی ہے ،اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، البتہ حکومت کے سروے سے یہ سمجھنا کہ حکومت مدارس کے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہ بڑھانے کا حکم جاری کردے گی ،یہ خوش فہمی ھے ، جس سے باہر آنے کی ضرورت ہے
مدارس نظامیہ عوامی چندے سے چلتے ہیں ، ملت میں بہت سے حضرات صاحب نصاب ہیں ، وہ زکوۃ کی رقم نکالتے ہیں ، اور مدارس کو دیتے ہیں ، ان ہی کے صدقات ، زکوۃ اور عطیات کی رقم سے یہ مدارس چلتے ہیں ، اور یہ مدارس ملت کی بڑی ضرورت پوری کرتے ہیں ، اس لئے اہل خیر حضرات کو چاہئے کہ ان مدارس پر توجہ دیں اور ان کی اتنی مدد کریں کہ یہ خود کفیل ہوکر اپنے اساتذہ و ملازمین اور دیگر ضروریات کی تکمیل کر سکیں ، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے۔

(مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی