ہکا بکا نمرود

آج کل چچا مختصر قرآنی قصے سنا رہے تھے. چچا نے قصہ سنانا شروع کیا:
"بہت زمانے پہلے کی بات ہے ایک بادشاہ تھا، اس کا نام نمرود تھا، وہ اپنے آپ کو خدا یا خدا کا اوتار سمجھتا تھا، پرانے زمانے میں بہت سے بادشاہ ایسا کرتے تھے، اس سے ان کی حکومت کو مذھبی تقدس اور احترام بھی حاصل ہوتا تھا اور ان کے لیے حکومت کرنا بہت آسان ہو جاتا تھا..
نمرود کی قوم سورج کی پوجا کرتی تھی اور نمرود اپنے کو سورج کا اوتار سمجھتا تھا.
جب ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا شروع کیا اور توحید کی دعوت دینی شروع کی تو نمرود کو بہت خراب لگا، اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلایا اور ان سے ہوچھا:
"تم لوگوں کو کس خدا کی طرف بلاتے ہو؟،،
ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:
” میرا رب تو وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے.،،
نمرود نے کہا:
” زندگی اور موت پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں، جس کو چاہوں زندہ رکھوں اور جس کو چاہوں زندگی سے محروم کردوں.،،
حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ نمرود بحث اور کٹ حجتی پر اتر آیا ہے. حضرت ابراہیم چاہتے تو اس کے اس احمقانہ جواب کا رد کر دیتے جس کے اندر کوئی دم نہیں تھا مگر وہ بہت سمجھدار تھے انھوں نے ایک دوسرا انداز اختیار کیا، انھوں نے کہا: "میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا دے.،،
ابراہیم علیہ السلام کا یہ ایک ایسا وار تھا جس پر نمرود ہکا بکا رہ گیا.
چچا یہ ہکا بکا کیا ہوتا ہے؟ یہ تو بالکل نیا لفظ ہے.،،
حمیرا اچانک بول پڑی.
” ابو اگر آپ کہیے تو میں بتا دوں،،؟
زارا جلدی سے بول پڑی.
” ٹھیک ہے تم ہی بتاو، اگر تم کو صحیح معلوم ہو.،،
"مجھے معلوم ہے اس لیے کہ اس دن اسکول میں یہی کہانی بلال سر نے بھی سنائی تھی.
ہکا بکا کا مطلب ہوتا ہے.حیران پریشان ہوجانا، کوئی جواب نہ دے پانا.،،
"تمہارا جواب بالکل درست ہے،،
چچا نے زارا کی حوصلہ افزائی کی.
حمیرا نمرود کا قصہ تو بھول گئی، ہاں آج وہ پورے دن ہکا بکا ہی دہراتی رہی.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے