محمد قمر الزماں ندوی
قربانی یا عید الاضحیٰ ایک عظیم الشان عبادت ہے ،اس کی عظمت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
عید قربان در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی کی اتباع اور تقلید ہے ،جو تاقیامت جاری و ساری رہی گی ۔ دنیا میں جن کی زندگی عظیم قربانیوں سے پر ہے اور جو ہر قربانی اور امتحان میں کھرے اترے ،وہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔جن کا لقب ہی خلیل اللہ ہے ،اور جن کی نسل سے آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، ۔۔
عید قرباں دراصل سراسر قربانی کا پیغام ہے، یعنی خواہشات کی قربانی ، جذبات کی قربانی، اظہارِ خیال و رائے کی قربانی، اور حق و صداقت کی راہ میں دل و جان کی قربانی، دین و ایمان کے لئے مال و نفس کے قربانی۔ یہ سب اس کے تقاضوں میں شامل اور داخل ہے۔
قربانی کی اصل روح اور پیغام یہ ہے کہ ہمارا ہر عمل اخلاص و للہیت سے پر ہو، نام و نمود اور ریا سے پاک اور خالی ہو ۔ قربانی کی اصل نیکی و تقویٰ کا حصول ہے ،گوشت خوری کے مظاہر اور شہرت طلبی سے ساری قربانی ضائع ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے پاس نہ تمہارا گوشت پہنچتا ہے ،نہ خون ،صرف تمہاری پرہیز گاری اور خلوص پہنچتا ہے ۔۔یہی وجہ ہے کہ قربانی کے وقت ہم یہ اقرار کرتے ہیں اور یہ استحضار رہنا چاہیے کہ بیشک میری نماز ،میری عبادت ،میرا حج میرا مرنا اور جینا سب اللہ کے لئے ہے جو سارے جہاں کا رب ہے ،جس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اس حقیقت کو ماننے اور تسلیم کرنے والا ہوں ۔۔
ہم سب عید قرباں کے دوگانہ سے فارغ ہوگئے ایک دوسرے سے ملاقات سے بھی فارغ ہوچکے ہیں اور اب قربانی کے عمل میں لگنے والے ہیں ، بس ہم سب اپنا محاسبہ ضرور کریں کہ قربانی کی عظیم عبادت کو ہم اس کو رسمی ادا کررہے ہیں یا قربانی کا پیغام اور سبق بھی ہمارے سامنے ہے ،حضرت ابراہیم و اسمعیل علیما السلام کا اسوہ اور شعار بھی ہمارے پیش نظر ہے ۔۔۔۔۔۔؟