جرعات: اسانغنی مشتاق رفیقی
شہر وانم باڑی کو جنوب کا علی گڑھ کہا جاتا تھا۔ اس کی دو وجہیں تھیں۔ پہلی وجہ سر سید نے جب علی گڑھ تحریک شروع کی تھی تو اس کی تائید میں اور ان کے نقش قدم پر جنوب میں پہلا اسکول شہر وانم باڑی میں ہی قائم کیا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہاں کے عوام میں تعلیمی بیداری اور تعلیم کے تئیں ایک والہانہ لگاؤ تھا جس کی مثال آس پاس کے علاقوں میں بھی ملنی مشکل تھی۔ لیکن اب وہ باتیں قصہء پارینہ بنتی جارہی ہیں۔ عوام میں تعلیمی بیداری کا فقدان اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ لوگ بنیادی تعلیم کی طرف سے بھی حد درجہ بے پروائی برتنے لگے ہیں۔ جنگلی مشروم کی طرح شہر میں اُگ آئے انگریزی کانونٹس کی وجہ سے جہاں تعلیم مہنگا ہوتا چلا گیا ہے وہیں اس کے معیار میں بھی گراوٹ درج کی جا رہی ہے۔ مادری زبان سے بے اعتنائی اور انگریزی زبان کی اندھ بھگتی نے سمجھ کر پڑھنے کی جگہ ازبر یاد کرنے اور رٹا لگانے کا مزاج پیدا کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے طلباء کی تخلیقی سوچ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخلہ کرانا معیوب سمجھا جانے لگا ہے بھلے سے بچے تعلیم سے محروم ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ ان سب کے علاوہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی اورچند ناگزیر حالات کی وجہ سے جدید تعلیم کے تئیں منفی سوچ بھی ہماری تعلیمی ترقی کو متاثر کرنے لگی ہیں۔
امدادی اسکولوں کا حال بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ فلاحی اور سماجی اداروں کے تحت چلنے والے ان تعلیمی اداروں میں تعلیم کی طرف کم باقی باتوں کی طرف توجہ زیادہ دی جا رہی ہے۔ ایک دور تھا جب ان اداروں کے انتظامیہ میں دور اندیش اور پر خلوص لوگ ہوا کرتے تھے جن کا مطمح نظر قوم کے نو نہالوں کی ہر حال میں اعلیٰ تعلیم ہوا کر تا تھا ۔ وہ لوگ ہر اس بات پربھر پور توجہ دیتے تھے جس سے تعلیمی معیار بڑھایا جاسکے اور اعلیٰ تعلیم کی راہ ہموار ہو۔ اس کے لئے وہ ہر قسم کی مالی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے بھلے سے اس کی وجہ سے بظاہر ادارے کا نقصان ہی کیوں نہ نظر آتا ہو، اگر ایسا ہوگیا بھی تو وہ اپنی صرف خاص سے اس کی بھر پائی کردیتے تھے۔ لیکن اب جو انتظامیہ ان اداروں پر مسلط ہے اس کی اکثریت کاروباری سوچ رکھنے والوں کی ہے۔ ان کا مقصد تعلیمی معیار بلند کرنے سے زیادہ اداروں کے بینک بلینس میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ وہ طلباء کو ایک بہترین تعلیمی ماحول دینے سے زیادہ اسکول کی عمارتوں کو شاندار بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالب علموں کے لئے اعلیٰ اور پیشہ وارانہ تعلیم کی راہیں ہموار کرنے کے بجائے جن عہدوں اور کرسیوں پر وہ براجمان ہیں ان کو کسی بھی طرح اپنی جاگیر بنائے رکھنا ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
نتیجے میں شہر کا تعلیمی گراف بہت تیزی سے گرنے لگا ہے اور ڈراپ آوٹس کی شرح میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ تھوڑی سی توجہ مبذول کرکے کوئی بھی آسانی کے ساتھ اس حقیقت کو پاسکتا ہے کہ ہمارے شہر کی تعلیمی ترقی ان دنوں کس بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ شہر میں ہماری آبادی کا تناسب اور دسویں جماعت کے امتحان میں شہر کےتمام سرکاری، امدادی اور پرائیویٹ اسکولوں سے ہمارے کتنے بچے شریک ہوئے، ان میں کامیابی کتنوں کو ملی اور ان کامیاب طلباء میں کتنے ہیں جو آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں اور جو ناکام ہوگئے ان کا کیا حشر ہوا؟ کیا انہوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیاَ؟اس کے علاوہ بارہویں جماعت کے امتحان میں ہمارے کتنے بچے شریک ہوئے؟ ہماری آبادی کے تناسب سے کیا یہ تعداد تشفی بخش ہے؟ اور جو طلباء اس امتحان میں کامیاب ہوئے ان میں کتنوں نے اعلیٰ تعلیم کے لئے کالجوں میں داخلہ لیا اور کتنوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا؟ ان میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب کیا ہے؟ سلسلہء تعلیم منقطع کرنے کی وجہیں کیا ہیں؟ کیا ان سب سوالوں پر ہم نے کبھی غور کیا ہے، کیا شہر کے کسی تعلیمی ادارے نے ان سولات کے جوابات تلاشنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی بھی ہے؟ کیا اس بات کو لے کرکسی مسجد میں کسی درس گاہ میں کسی سیاسی سماجی محفل میں غور خوص ہوا ہے؟ اگر نہیں تو ایسا کیوں ہے کہ ایک ایسے سوال پر جو ہمارے آنے والی نسلوں سے اور ان کی ترقی اور بقا سے جڑا ہوا ہے اتنی گہری خاموشی؟!! سوچئے!!اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے سوچئے!!! تعلیمی بیداری کی سو سالہ تاریخ رکھنے والے ہمارے شہر میں آخر ایسا کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے کہ ہماری تعلیمی تنزلی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
نہ سوچو گے نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے دنیا سے
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں