ہم اور آپ سنہ 1444ھ سے نکل کر ایک نئے سال 1445ھ میں داخل ہو چکے ہیں، اللّٰہ تعالی کے نزدیک ایک سال میں کل بارہ ماہ ہوتے ہیں، جن میں چار ماہ کو عظمت و حرمت والا مہینہ کہا گیا ہے، ان میں ایک محرم الحرام بھی ہے، اور یہ حسنِ اتفاق ہے کہ یہی مہینہ سنہ ہجری کا نقطۂ آغاز بھی ہے، کم علم اور دکھاوا کرنے والے لوگ نئے سال کے آغاز پر مبارک بادیاں پیش کرتے ہیں، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے؛ بلکہ اگر آئندہ چل کر رواج بن جانے کا خدشہ ہو کہ لوگ اسے ضروری سمجھنے لگیں تو بدعت کا حکم لگایا جائے گا، اسلامی ہجری تاریخ کا اہتمام کرنا فرض کفایہ ہے، جس سے عام لوگ ناواقف ہیں، یہ تو بہت سارے ممالک میں اہلِ مدارس کا احسان ہے کہ امت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
ہر سال کا آمد و رفت؛ بلکہ ہر ہر سکنڈ اور ہر ہر منٹ کا آنا جانا، ہمیں یہ کہہ کر جھنجھوڑتا ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی شَے کو دوام و ثبات حاصل نہیں ہے؛ بلکہ ہر شَے اپنی فنائیت کی جانب گامزن ہے، نئے سال کی آمد پر جشن منانے کی بجائے ہمیں اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ آیا ہم نے سالِ ماضی کیا کیا گل کھلائے ہیں؟
اگر ہماری زندگی رب کی مرضیات پر گذری ہے تو اس رب کریم کا شکر بجا لائیں کہ اسی کی توفیق سے یہ سب کچھ ہوا ہے، اور اگر ہماری زندگی راہ راست سے ہٹ کر گذری ہے تو توبہ استغفار کریں اور آئندہ صراطِ مستقیم پر چلنے کا عزم مصمم کریں۔
محرم الحرام اپنی فضیلت و برکت اور عظمت و حرمت کے لحاظ سے منفرد حیثیت رکھتا ہے اور یہ عظمت و حرمت اس مہینے کو دو وجہوں سے ملی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے جن چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ شمار کیا ہے، ان میں ایک ماہ محرم بھی ہے، بقیہ تین مہینے ذوالقعدہ ذوالحجہ اور رجب المرجب ہیں،
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مہینے کو اس کے روزوں کی بابت فضیلت و اہمیت حاصل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب رمضان المبارک کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے، تو یہی یومِ عاشورہ کے روزے فرض تھے؛ لیکن جب رمضان کے روزوں کی فرضیت ہوئی تو عاشورہ کے روزوں کی فرضیت منسوخ ہوگئی؛ لیکن اب بھی اس کے مسنون و مستحب ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے؛ کیوں کہ بہت سی احادیث میں یوم عاشورہ کے روزوں کی فضیلت آئی ہے؛ لیکن کچھ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے کی عظمت سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ہے؛ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا رتبہ اس مہینے میں شہادت کی وجہ سے بڑھ گیا ہے، تو کسی حد تک صحیح ہوگا، اس واقعۂ کربلا سے پہلے ماہِ محرم میں کئی بڑے بڑے واقعات تاریخ اسلام میں پیش آئے ہیں، مثلاً: غزوۂ خیبر محرم سنہ7ھ میں پیش آیا، اور اس غزوے میں مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ماہِ محرم سنہ14ھ میں جنگِ قادسیہ پیش آیا اور تین دن کے مسلسل مڈ بھیر کے بعد مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی، ماہِ محرم سنہ21ھ میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاتحانہ انداز سے مصر میں داخل ہوئے، ماہِ محرم سنہ24ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے مشورے سے خلافت کے عہدے پر فائز کیا گیا، ایسے اور بھی بہت سے واقعات پیش آئے ہیں؛ لیکن شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کو لے کر واویلا مچانا، اور خلافِ شرع کام کرنا، یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ کچھ لوگ اپنی تقریر اور وعظ کو لچھے دار اور لچکدار بنانے کے لیے یومِ عاشورہ کی مناسبت سے طرح طرح کے واقعات بیان کرتے ہیں جن کو مضبوط تاریخی سند حاصل نہیں ہے، غیر مستند انداز میں منقول ہوتے چلے آرہے ہیں،
مثلاً: وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو محرم کی دسویں تاریخ کو آسمان سے زمین پر اتارا گیا اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے اسی دن نجات ملی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر اسی دن ٹھہری، حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اسی دن اٹھایا گیا، ان واقعات کی کوئی مضبوط سند نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ماہِ محرم کے جملہ ایام میں یومِ عاشورہ کو اہمیت حاصل ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے،(صحیح مسلم: 1162)۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشورہ کے روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے، مدینہ آنے کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود و نصاری بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا، تو انہوں نے بتایا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اسی دن فرعون کے چنگل سے آزادی ملی اور اسی دن فرعون غرق ہوا، تو آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم یومِ عاشورا کا روزہ رکھو، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو، اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو، (مسند احمد)۔ مختلف روایات کو دیکھتے ہوئے علامہ ابن القیم، حافظ ابن حجر اور علامہ یوسف بنوری علیہم الرحمۃ نے لکھا ہے کہ یوم عاشورا کے روزے کے تین مراتب ہیں: سب سے ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ رکھا جائے، اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھا جائے، اور اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ گیارہ کا بھی روزہ رکھ لیا جائے۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دسویں محرم کو حلال آمدنی سے اپنے کنبہ پر اکل و شرب میں فراخ دلی سے کام ل
ینا وسعت رزق کا ذریعہ ہے،(رواہ رزین وغیرہ)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ مہینہ انتہائی عظمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے منفرد حیثیت رکھتا ہے؛ لیکن کچھ لوگ اس کی برکات سے فائدہ حاصل کرنے کی بجائے بدعات و رسومات میں پڑ کر اس کے حقیقی فضائل سے محروم ہو جاتے ہیں، مثلاً: تعزیہ بناتے ہیں، مجالس منعقد کرتے ہیں،اس میں نوحہ اور ماتم کرتے ہیں ،بعض لوگ تو اس مہینے کو غم کا مہینہ سمجھتے ہیں، اس میں بعض خوشی کے کام کو ناجائز اور مکروہ سمجھتے ہیں، اور اسی طرح اس دن اس کام کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے، پانی پلایا جائے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھوک اور پیاس کی شدت کے وقت شہید کیے گئے تھے، اس سے آپ کی پیاس بجھ جائے گی، اور ڈھول تاشے بجا کر ناچ گانا کرتے ہیں، یہ خلافِ شریعت ہے، اس دن تو سبیل لگانے اور کھانا کھلانے کی بجائے روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ آخر میں بارگاہ رب العزت میں دست بدعا ہوں کہ یا الہ العالمین! پوری امت مسلمہ کی ان تمام بدعات و رسومات سے حفاظت فرما اور اس کے فضائل و برکات سے مستفید ہونے کی توفیق مرحمت فرما ، آمین ثم آمین
ازقلم: اسرار عالم قاسمی، کشن گنج، بہار
متعلم: دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد
نوٹ: تھوڑا وقت نکال کر خود بھی پڑھیں اور صدقۂ جاریہ کی نیت سے شیئر بھی کریں؛ تاکہ امت کی اصلاح ہو۔