،،عربی،، زبان میں شہد کے لیے ،،عسل،، کا لفظ استعمال ہوا ہے، قرآن مجید میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے، ،،وعسل مصفی،،شہد ان غذاؤں میں ہے، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر پسند فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضورﷺ کو میٹھی چیز حلواء اور شہد محبوب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو علاج کے لئے بھی مفید قرار دیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں میں خصوصیت سے شفا قرار دی، جن میں ایک شہد ہے۔ ایک صاحب پیٹ کے مریض تھے، تو ان کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کھلانے کی تلقین فرمائی، چنانچہ اطباء نے بھی شہد میں علاج کی خصوصی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے اور اسی لیے قدیم یونانی ادویہ تو تیار ہی شہد میں کی جاتی ہیں۔ (قاموس الفقہ ۴/ ۳۹۱)
مولانا عبد الماجد دریا بادی رح سورہ نحل میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں،،
،، شہد کی مکھی اپنی فراست، دانائی، عقلی توانائی کے ساری حیوانی دنیا میں مشہور و ممتاز ہے، فرنگی ماہرین فن نے کتابوں پر کتابیں ان مکھیوں کی فراست و دانائی اور حسن انتظام و تدبر پر لکھ ڈالی ہیں، اور ماہرین فن نے دنیا میں مکھی 🐝 کی بیس ہزار قسمیں بیان کی ہیں، حق تھا کہ اس ننھی سی مخلوق کی ذہانت خاصہ کو وحی الہی کی جانب منسوب کرتی۔
ان مکھیوں کا ایک ایک پھل پھول پر رس چوسنے کے لئے بیٹھے رہنا، میلوں کا سفر طے کرکے، بغیر راستہ بھولے بھٹکے اپنے چھتے کی طرف واپس آجانا، حیوانات کی ایک مشہور و مشاہد حقیقت ہے۔ فضا میں بظاہر کوئی متعین راہ سڑک گلی پگڈنڈی وغیرہ نہیں ہوتی، مکھیوں کا بالکل ٹھیک راستہ سے اپنے چھتے پر واپس جانا، عین الہام فطری کا نتیجہ اور ربوبیت کاملہ کی ایک واضح دلیل ہے۔ حیوانات میں بھی الہام فطری عجائب عقل انسانی سے کچھ کم نہیں ہوتے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ کوئی آٹھ قسم کے شہد تو اکیلے عرب ہی میں ہوتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان میں سرخ 🔴 شہد، زرد شہد، سفید شہد سیاہی مائل شہد، غرض مختلف رنگوں کا شہد تو شاید ہر ایک کے مشاہدہ میں آچکا ہے۔
۔۔۔شراب ۔۔یہاں اس شریں مشروب یعنی شہد کو کہا گیا ہے، پھولوں کا رس جو مماکھی چوس کر لاتی ہیں، وہ ابتداء میں پھولوں کی ناصاف شکر ہوتی ہے، مماکھی اس کو اپنے خصوصی نظام ہضم کے ذریعہ نہایت لطیف قسم کی شکر میں تبدیل کردیتی ہے۔ ۴۰ / تا ۵۰/ فیصدی یہی شکر ہوتی ہے اور پھر ۳۰/ تا ۳۷/ فیصدی ایک دوسرے قسم کی شکر ہوتی ہے، باقی حصوں میں تحلیل کرنے والے اجزاء، خمیر کرنے والے اجزاء، دیگر کیمیاوی اجزاء اور نمکیات حیاتین ہوتے ہیں۔
شہد کے منافع اور فضائل طب یونانی طب ہندی ویدک طب افرنگی (ڈاکٹر )سب کو مسلم ہیں ۔ اس کے فوائد شروع سے مسلم چلے آتے ہیں، اور ویدک اور طب یونانی کی کتابوں میں برابر درج ہیں، ادھر چند سالوں سے یورپ بھی زیادہ متوجہ ہوا ہے اور جرمن،سوئیزرلینڈ، فرانس اور روس کے ڈاکٹروں نے علی الخصوص اس کے معالجاتی تجربے، منھ کے زریعہ سے دینے اور انجکشن سے اندر پہنچانے کے کئے ہیں، ان سے ثابت ہوا کہ امراض دوران خون، امراض تنفس، امراض جگر، امراض صدر، امراض شرائین، امراض امعاء، امراض چشم ، امراض جلد وغیرہ سب میں یہ نہایت درجہ مفید ہے۔ بقول ڈاکٹر زکی علی المبارک کہ،،در حقیقت شہد ایک قدرتی نعمت ہے جو بہت سی ایسی صورتوں میں کام آتی ہے، جنھیں پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا، امراض کے لئے اس کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے، یہ ایک اعلیٰ غذا بھی ہے اور دوا بھی،،۔
قدرت حق نے ایک زہریلے نیش زن جانور سے کیسی حیرت انگیز شفا بخش چیز پیدا کردی ہے۔ یقینا اس کے اندر بڑی نشانی ہے، ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔
فرنگیوں نے مماکھیوں کی فراست و صنعت گری پر ان کے چھتوں کی عجیب و غریب صناعی پر اور شہد کے غذائی اور دوائی منافع پر ضخیم کتابیں لکھ ڈالیں ہیں، یہ سب ،،لآیت لقوم یتفکرون،، کی تفسیر نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ لیکن افسوس ہے کہ ان محقیقین فاضلین کو بھی کہیں توفیق،، تفکر،، کی نہ ہوئی کہ اپنی ان تحقیقات عالیہ سے کوئی بھی سبق ،،معرفت رب،، کا حاصل کرتے۔
ان مکھیوں کا چھتہ بھی صنعت و کاریگری کا ایک حیرت انگیز نمونہ ہوتا، معلوم ہوتا ہے، کسی اعلیٰ مہندس یا انجئیر نے اسے تیار کیا ہے،،۔ (ماخوذ و مستفاد از تفسیر ماجدی تفسیر سورہ نحل) ۔۔۔۔۔
مولانا وحید الدین خان صاحب اپنی تفسیر،،تذکیر القرآن،، میں لکھتے ہیں،،
،،شہد کی مکھی یقینا خدا کی قدرت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے۔ وہ ریاضیاتی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے انتہائی معیاری قسم کا چھتہ بناتی ہے۔
شہد کا یہ معجزاتی کارخانہ تمام انسانی کارخانوں سے زیادہ پیچیدہ اور زیادہ کامیاب ہے۔ تاہم بظاہر وہ ایسی مکھیوں کے ذریعہ چلایا جارہا ہے، جنھوں نے کہیں اس فن کی تعلیم نہیں پائی۔ حتیٰ کہ اپنے اعمال کا ذاتی شعور بھی انہیں حاصل نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کروانے والا اور انجام دلانے والا ہے، جو اپنی مخفی ہدایات کے ذریعہ مکھیوں سے یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔ شہد کی مکھی کو اگر کوئی دیکھنے والا دیکھے تو وہ ان کی حیران کن حد تک بامعنی سرگرمیوں میں خدا کی کار فرمائی کا زندہ مشاہدہ کرنے لگے گا۔ شہد کی مکھی کی مثال دینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح شہد کی مکھی زبردست محنت کے ذریعہ پھولوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہے، جس میں لوگوں کے لیے غذا اور شفا ہے۔ اسی طرح اللہ کے بندوں کو چاہیے کہ وہ کائنات میں غور و فکر کےذریعہ حکمت کی چیزیں حاصل کریں، جو ان کی روح کی بھی غذا ہو اور ان کی اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی۔ جو چیز شہد کی مکھی کے لیے ،، رس،،ہے وہی انسان کی سطح پر پہنچ کر ،،معرفت ،، بن جاتی ہے۔
ازقلم: محمد قمرالزماں ندوی، مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
نوٹ مضمون کا آخری حصہ کل ملاحظہ کریں ۔
ناشر / مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 6393915491