یہ دنیا ہے یہاں آب و ہوا بدلتی رہتی ہے چاہے پیار محبت کی ہوا ہو چاہے سیاست کی ہوا ہو اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے،، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی عوام کو مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،، ہاں مگر صبر اس بات پر ہوتا ہے کہ ہر پریشانی کے بعد آسانی بھی ہے، عروج کے ساتھ زوال بھی ہے، ہر رات کو صبح کا سامنا کرنا ہے اس لئے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ حالات کا سامنا کرنا چاہئے اور مستعدی کے ساتھ مقابلہ بھی کرنا چاہئے لیکن ہاں کچھ ایسے لمحات آتے ہیں کہ عوام کو ان لمحات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں یہ انسانی فطرت ہے ہاں ان لمحات میں بھی عوام کو جب کچھ میسر نہیں ہوتا ہے تو جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور بے بسی بھی ظاہر کرنے لگتا ہے،، عوام مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک انتخابات میں کسی کو ووٹ دیتی ہے تو اس سے یہ امید بھی لگائے رہتی ہے کہ ہمارے اوپر کوئی پریشانی آئے گی یا ہماری زندگی میں کوئی مسائل درپیش آئیں گے تو ہم نے جسے اپنی رہنمائی کے لئے منتخب کیا ہے تو وہ ضرور ہماری رہنمائی کریں گے اور ہمارے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اب ظاہر بات ہے کہ ہمارے رہنما کا طور طریقہ اس کے برعکس ہوگا تو افسوس کی بات بھی ہوگی اور تشویشناک مراحل بھی ہوں گے اور غم و غصے کا بھی اظہار ہوگا،، اسی طرح ملی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تو ان کا کام بھی یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات پر نظر رکھیں اور حکومت کی جانب سے جو قوانین بنائے جاتے ہیں تو اس پر بھی نظر رکھیں اور اس قانون سے قوم و ملت کا کیا فائدہ نقصان ہونے والا ہے اس پر بھی نظر رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ ملت کو حالات حاضرہ سے باخبر بھی کرتے رہیں،، مگر یہاں تو عجیب صورت حال ہے ملت کے نام پر بنی کمیٹیوں کا عوام سے رابطہ بھی پوری طرح منقطع رہتا ہے صرف ایک ہی تنظیم ہے جس کی شاخ پورے ملک میں ہے باقی دوسری کوئی تنظیم ایسی نظر نہیں آتی جس کی شاخ ملک کے ہر علاقے میں ہو لیکن پھر بھی نہ جانے کیا بات ہے کہ ان تنظیموں کی صدارت اور قیادت کے انتخاب میں زور زبردستی اور دھاندلی تک کی جاتی ہے مخصوص مکتب فکر کے ساتھ ہی مخصوص طبقے کو ترجیح دی جاتی ہے،، جب ہم ملی تنظیموں کی صدارت اور قیادت کے انتخاب میں کل مومن اخوۃ کو ترجیح نہیں دیتے تو پھر کس بنیاد پر مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مسلمانوں کے پسماندہ طبقات میں بڑے بڑے عالم ہیں کیا ان طبقوں میں سے کسی کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کا صدر بنایا گیا؟ یہی نہیں جب سے مسلم پرسنل لاء بورڈ بنا ہے اس وقت سے آج تک ایک ہی مکتب فکر کے علماء کو صدر بنایا گیا ہے باقی دوسرے عہدوں پر رکھ دیا جاتا ہے وہ بھی ربڑ کی مہر کی طرح کہ داب دینے پر چھپ جائے یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے بورڈ اور تنظیم کی حکومت کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں ہے،، اور کچھ لوگ ہیں جو شخصیت پرستی کے پرچار پرسار کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں اور وہی کام اغیار کی طرف سے ہوتا ہے تو اسے اند بھکت کہا جاتا ہے جبکہ وہ بیماری تو ہمارے اندر بھی ہے-
ملک میں این آر سی، سی اے اے جیسا مسلہ کھڑا ہوا کیا ملی تنظیموں نے قوم کے لئے کوئی تسلی بخش قدم اٹھایا؟ اب یکساں سول کوڈ کا مسلہ پیدا کیا جارہا ہے تو صرف لنک تقسیم کیا جارہا ہے کہ اپنا احتجاج درج کرائیں کیونکہ لاء کمیشن نے رائے مانگی ہے اب سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا رائے دینا اور احتجاج کرنا دونوں ایک ہی بات ہے؟ رائے دینے اور احتجاج کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے؟ کیا عوام کو ایک بار پھر اندھیرے میں نہیں رکھا جارہا ہے اور اگر آن لائن آپ احتجاج کریں گے تو کیا آپ کا احتجاج مؤثر ہوگا ؟ بلکہ اگر لاء کمیشن نے یونیفارم سول کوڈ سے متعلق راۓ مانگی ہے تو گویا آپ سے مشورہ مانگا گیا ہے کہ نافذ کیا جائے یا نہ کیا جائے،،یا کس طرح نافذ کیا جائے اور کیا خاکہ بنایا جائے اگر کسی کو اپنا گھر تعمیر کرانا ہو تو وہ کسی جانکار سے کہے کہ آپ راۓ دیں مجھے اپنا گھر تعمیر کرانا ہے تو وہ نقشہ بنائے گا یا بتائے گا تو یہ رائے ہوئی اور مشورہ ہوا،، اگر وہ یہ کہے کہ میں نہیں رائے دوں گا اور تمہارا گھر بننے بھی نہیں دوں گا تو یہ مخالفت ہوئی اور احتجاج ہوا یہ ہے رائے اور احتجاج کا فرق،، بے مقصد بحث اور ہنگامہ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے،، ایسے ہی حالات سے اور مسلم سیاستدانوں کے ساتھ ہی کچھ بڑے بڑے علماء کرام کے طرز عمل سے متاثر ہوکر پنجاب کے شاہی امام کہتے ہیں کہ کبھی مایوس کن بیان دیا جاتا ہے کہ حکومت ہمارے حقوق چھین لے تو ہم کیا کرسکتے ہیں، تو کبھی بیان دیا جاتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ شریعت کے خلاف ہے اور ہمیں یہ ہرحال میں ناقابل قبول ہے، جمہوریت کے لئے خطرہ ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم یو سی سی کو قبول نہیں کرسکتے تو کبھی آدم اور منو کو ایک بتایا جاتا ہے، تو کبھی اوم اور اللہ کو ایک بتایا جاتا ہے،، آخر بڑے بڑے علماء مسلمانوں کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں اور واضح طور پر کیا کہنا چاہتے ہیں،، دوسری طرف ایک عالم دین نے ایک خطبہ دیا ہے کہ مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی یونیفارم سول کوڈ کا کوئی خاکہ نہیں بنا ہے جب بنے گا تو دیکھا جائے گا امام کی وہ ویڈیو وائرل ہوئی اور بہت زیادہ لوگوں نے پسند کیا ہے وجہ یہ ہے کہ امام نے اپنے خطبے میں کہا کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے تو ہم ہی کیوں پریشانی اور ہیجان میں مبتلا ہوں،، جبکہ بہت سے لوگ للکار رہے ہیں اور لگتا ہے کہ یہ لوگ خود ہی مذکورہ قانون کا خاکہ تیار کرنے اور
کرانے پر تلے ہوئے ہیں،، مختلف پارٹیوں کے لیڈران سے مل کر یو سی سی پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کررہے ہیں یہ تو بالکل وہی بات ہوئی کہ دعوت کا اہتمام ہوا زید کے گھر اور کھانے میں کتنے آئیٹم ہیں اور ذائقہ کیسا ہے یہ پوچھا جارہا ہے بکر کے کھر جاکر کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں ہے،، بالکل ہے حکومت بی جے پی کی ہے اور وہی یکساں سول کوڈ کی بات کررہی ہے تو بی جے پی کے لیڈران اور وزراء سے ملاقات کرکے حقیقت معلوم کیوں نہیں کی جاتی ویسے اکثر مواقع پر ملی تنظیموں کے ذمہ داران برسراقتدار جماعت کے حکمرانوں اور لیڈروں سے ملتے رہتے ہیں تو قوم کے مسائل پر کیوں نہیں وہی قدم اٹھایا جاتا اس سے تو پھر وہی نظریہ واضح ہوتا ہے کہ قوم کو اندھیرے میں رکھنا ہے-
ابھی حال ہی میں رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری محمد بن عبد الکریم عیسیٰ نے بھارت کا دورہ کیا عوام کو بالخصوص مسلمانوں کو کچھ امید تھی کہ ہوسکتا ہے موصوف یکساں سول کوڈ سے متعلق حکومت سے گفت و شنید کریں مگر یاتو موصوف چوک گئے یاکہ تفریحی مقامات کے نظارے میں کھوگئے جن جن مقالات پر گئے ان میں بہت سے ایسے مقام بھی ہیں کہ کسی زمانے میں عرب کا کوئی حکمراں آیا تھا تو ان مقامات پر پردہ ڈال دیا گیا تھا اور آج جو تبدیلی آئی ہے وہ پوری دنیا نے دیکھا جبکہ رابطہ عالم اسلامی کے ذمہ دار کا مطلب و مقصد تو یہی ہونا چاہئے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے کیا حالات ہیں اور کیا مسائل درپیش ہیں اس سے پوری طرح باخبر ہوں مگر چمچماتی ہوئی کار میں گھومنے والے عالیشان عمارتوں میں میٹنگ کے نام پر ناشتہ پانی کرنے والے مسلمانوں کے حالات کیا خاک جانیں گے-
اب کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں بیس پچیس کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے اور یکساں سول کوڈ سے متعلق صرف اسی لاکھ مسلمانوں نے لاء کمیشن کو اپنی رائے بھیجی یہ کتنے افسوس کی بات ہے،، جبکہ اس بات پر نہیں غور کیا جاتا کہ کیا ہم نے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا کہ نہیں،، ہندوستان کے کسی صوبے، کسی ضلعے، کسی تحصیل علاقے میں ہم نے کوئی بیداری مہم چلایا،، جب یہ سب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر کس بنیاد پر یہ سوچ لیا گیا کہ لوگ سو فیصد رائے دیں گے یا احتجاج درج کرائیں گے؟ صرف واٹس ایپ اور فیس بک یعنی سوشل میڈیا پر ہی تو اپیل کی گئی تھی ارے ضرورت تو اس بات کی تھی کہ زمین پر اترتے لوگوں کو فائدہ نقصان بتاتے اور لوگوں سے ملتے ملاتے اور اپیل کرتے تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔
تحریر: جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی