جشن آزادی ہند! کیا کریں اور کیا نہ کریں

یوم آزادی 15/اگست بس آیا چاہتا ہے اس پر مسرت اور پربہار موقع پر پورے ملک میں جشن آزادی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے ، ملک کے تمام باشندے ہندو، مسلم، سکھ ،عیسائی اور دیگر تمام ادیان و مذاھب کے پیروکار اس موقع پر یکساں خوشیاں مناتے ہیں اور یقیناً منانا چاہیے کیوں کہ تقریباً 76/سال پہلے اسی تاریخ 15/اگست 1947/ء کو ہمارے ملک میں آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا ۔
اسی آزادی ہند کی خوشی میں گاؤں، قریہ ،شہر، دیہات خصوصاً تعلیمی اداروں مدارس و اسکولز ،کالجز و یونیورسٹیز میں جشن یوم آزادی ہند بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، ملک کے قومی ترنگا جھنڈا لہرایا اور بلند کیا جاتا ہے۔
اسکول و کالجز اور کہیں کہیں مدارس میں بھی آزادی سے متعلق ڈرامے وغیرہ بھی پیش کئے جاتے ہیں، اور آزادی ہند کے ہیروں اور ویروں کو بھی الگ الگ طریقے سے یاد کرتے ہیں ۔
اس موقع پر بعض مسلم اسکولز میں بعض ایسے ڈرامے اور پروگرام بھی پیش کئے جاتے ہیں جو دین و شریعت مخالف معلوم ہوتے ہیں جیسے بعض چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اسٹیج پر میوزک موسیقی گانے کے ساتھ ڈانس وغیرہ کروائے جاتے ہیں، اسی طرح بعض بالغ یا قریب البلوغ بچیوں سے بھی اسٹیج پر نظم کے زیر وبم کے موقع پر ان سے بعض ناشائستہ حرکتیں بھی کروائے جاتے ہیں اور پھر ان کے ان حرکات و سکنات کی ویڈیوز تیار کراکر یوٹیوب پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، اسی طرح ان پروگراموں میں پردہ کا ذرہ برابر بھی لحاظ نہیں کیا جاتا ہے یہ ساری چیزیں اسلام میں ناجائز و حرام ہیں، ایسی حرکات و سکنات کرانے میں جتنا مجرم ذمہ داران اسکولز ہیں اتنا ہی بلکہ ان سے بڑا مجرم ان اسلامی کلیوں کے والدین ہیں اس لیے والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو اس کا پابند بنائیں کہ وہ اسکولز کے غیر اسلامی پروگرام میں ہرگز شرکت نہیں کریں گی ۔
وہیں دوسری طرف اس جشن آزادی ہند کے پروگرام میں ایسی چیزیں کرانی چاہیے کہ جس سے اسلامی نو نہالوں کو تاریخی معلومات حاصل ہو، جیسے سلطان سراج الدولہ ، اور سلطان ٹیپو شہید کی زندگی کو ڈرامہ میں پیش کیا جائے ،ان کا انگریزوں کے ساتھ جو جنگ ہوئی اسی طرح ان کے ساتھ جو غداری ہوئی تھی اس کو بھی پیش کیا جائے۔
اسی طرح تحریک ریشمی رومال، جلیاں والہ باغ، تحریک خلافت میں ترک موالات،فتوی اعلان بغاوت،ستیہ گرہ، مقدمہ کراچی اور ہندوستان چھوڑو تحریک وغیرہ کو ڈرامہ میں پیش کیا جائے، 1857/کی جنگ کو دکھایا جائے، اور پھر بعض لوگ جو اس موقع پر انگریزوں کی دریوزہ گری کئے تھے، غداری کرکے زندگی کی بھیک مانگے تھے ان تمام کو ڈرامائی انداز میں دکھایا جائے تاکہ نئی نسل کو تاریخ آزادی ہند پریکٹیکل طور پر معلوم ہوسکے۔
اگر یہ چیزیں مسلم مدارس و اسکولز و کالجز میں ہونے لگے گا تو جو لوگ آج آزادی ہند کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں وہ بری طرح سے خائب و خاسر ہوں گے ان شاء اللہ۔

ازقلم: ابومعاویہ محمد معین الدین
ادارہ تسلیم ورضا سمری دربھنگہ بہار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے