مولانا آزادکو انتقال ہوئے اور ان کے رسالے کو بند ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر ہندوستان کے سیاسی ، سماجی ، صحافتی اور ادبی آسمان پر ان کی خدمات کا ستارہ روشن ہے۔ فی الحقیقت ان کی شخصیت کا سحر آج بھی چھایا ہوا ہے اور ممکن ہے کہ اس کے اثرات صدیوں تک محسوس کیے جائیں۔ مولانا آزاد بنیادی طور پر صحافی تھے اور اسی راہ سے انھوں نے سیاست اور ادب میں اپنی پہچان بنائی۔ ان کی شخصیت کا جو ہر پوری طرح اسی میدان میں کھلا۔ کسی اور حیثیت میں وہ یاد کیے جائیں یا نہ کیے جائیں مگر صحافت میں ہمیشہ ان کا جادو سر چڑھ کے بولے گا۔
مولانا آزاد عالی ہمت، نابغہ روزگار اور عالم باعمل شخص تھے ۔ ان کے دل میں قوم و ملت کی خدمت کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رتا تھا۔ وہ قوم کی حالت زار پر اسی طرح خون کے آنسو بہاتے تھے جس طرح مولانا حالی ، سرسید احمد خاں اور مولانا شبلی نعمانی ۔ وہ اپنے دل میں بھڑ کی آگ کو قوم و ملت کے ہر فرد کے دل میں بھڑ کا نا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے اخبار نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد میں دوسروں کی اعانت اور ان کے افکار و خیالات کی ترجمانی کے لیے گنجائش کہاں تھی ۔ اسی وجہ سے مولانا نے اپنے مرغ ہمت کے لیے ایسے درخت کا انتخاب کیا تھا جس میں پھل پھول نہیں لگتے ، گو یا فائدے کی کوئی صورت نہیں پیدا ہوتی تھی ۔ کتاب آزاد کی کہانی میں فرماتے ہیں:
“ہندوستان واپس آنے پر میں نے کچھ وقت مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کے سوال پر صرف کیا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ رائے عامہ کی تعبیر کے لیے ایک جریدہ کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت پنجاب اور یوپی سے کئی روزنامے، ہفتہ وار اور ماہنامے اُردو میں شائع ہو رہے تھے مگر ان کا معیار کچھ زیادہ اونچا نہیں تھا۔ جیسے ان کے مضامین غیر معیاری ہوتے تھے ویسی ہی ان کی طباعت اور شکل وصورت بھی تھی۔ یہ اخبارات و رسالے لیتھو پر تیار ہوتے تھے، اس لیے جدید صحافت کے نقطہ نظر سے وہ تصاویر وغیرہ شائع کرنے سے عاری تھے ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں جو جریدہ نکالوں گا نہ صرف شکل وصورت کے اعتبار سے دیدہ زیب ہوگا بلکہ اس کے مضامین بھی معیاری اور تاثر انگیز ہوں گے۔ اس فیصلے کے تحت میں نے”الہلال” پریس قائم کیا اور اس کا پہلا پرچہ جون ۱۹۱۲ ء میں شائع ہوا”۔
‘الہلال’ کی اشاعت نے اُردو صحافت میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ ایک تو اس کی طباعت دوسرے تمام اخباروں سے بہت شاندار تھی دوسرے اس میں شائع ہونے والے مضامین، مقالے اور شذرات جدید تعلیم سے بہرہ ور دل و دماغ کو سکون بخشتے تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی تعلیم و تربیت سے متعلق اس میں ہمیشہ نئے نئے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی پچھلی اشاعتوں کو بار دگر شائع کرنا پڑا کیونکہ ہر نیا خریدار پچھلی اشاعتوں کی کاپیوں کا طالب ہوتا تھا۔” الہلال” سے اُردو صحافت کی دنیا میں مولانا نے قدم ضرور رکھا تھا مگر صحافتی تجربہ ان کا دیرینہ تھا۔ دس سال کی عمر میں اخبار عام اودھ اخبار، دارالسلطنت کا مطالعہ مولانا نے کرنا شروع کر دیا تھا اور گیارہ سال کی عمر میں گلدستہ نیرنگ عالم شائع کیا۔” الہلال” سے قبل ان کا تعلق المصباح ، احسن الاخبار، تحفہ محمدیہ، خدنگ نظر، لسان الصدق، الندوہ ، وکیل اور دارالسلطنت سے تھا۔ علاوہ ازیں وہ مخزن اور دیگر اخبار و رسائل میں برابر مضامین بھی شائع کراتے رہے تھے اور الہلال کے شائع ہونے سے قبل ایک درجن اخبارات میں ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے تھے مگر ان کے جو ہر قابل کی شناخت اور پذیرائی الہلال سے ہوئی۔ به حیثیت مدیر اور سیاسی مبصر ان کو شہرت ‘الہلال’ کی اشاعت کے بعد ہی ہوئی۔ ڈاکٹر طہ حسین کے خیال میں ان کی صحافت اُن سے شروع ہوتی تھی اور انھی پر ختم ہوتی تھی۔
چناچہ آزادیِ فکر کے تحفظ کے لیے مولانا آزاد نے صحافیوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ ان کی اس کوشش میں چند انگریزی اور بنگلہ اخباروں کے ایڈیٹروں نے تعاون بھی کیا مگر اس کا کوئی حسب خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ مگر مولانا کی کوششیں ضائع نہیں گئیں۔ "الہلال” نے ایک طرف حریت پسندی کی راہ ہموار کی ، دوسری طرف صحافت میں ادب کی چاشنی بھر دی۔ ان کی زبان کو مشکل پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مگر اس اسلوب نے کبھی افکار و خیالات کی ترسیل میں دشواری نہیں پیدا کی ۔ قارئین کو جو بات مولانا سمجھانا چاہتے تھے وہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے اور زبان و بیان کے مزے الگ لے رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا اُردو کے صاحب طرز ادیب قرار دیے جاتے تھے۔ ان کی نثر کی دلکشی، رعنائی، بلاغت اور فراست کی ہر فرد بشر نے تعریف و توصیف کی ہے۔
علامہ نیاز فتح پوری نے لکھا ہے کہ:
“مولانا آزاد نے الہلال جاری کیا اور اس شان کے ساتھ کہ صحافت کا تمام اگلا پچھلا تصور ہمارے ذہن سے محو ہو گیا اور ہم سوچنے لگے کہ کیا یہ آواز ہماری ہی دنیا کے کسی انسان کی ہے۔ کیا یہ زبان ہمارے ابنائے جنس میں سے کسی فرد کی زبان ہے۔” الہلال” اگر چہ عوام کی زبان میں صحافت کا جو ہر نہیں دکھا رہا تھا مگر اس کی اشاعت حیرت انگیز طور پر بڑھتی گئی اور بہت جلد اس کی پچیس ہزار کا پیاں شائع ہونے لگیں اور اس کے قارئین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی جو اپنے آپ میں ایک رکارڈ تھا”۔اس بیان سے مولانا کی کاوش ، جد و جہد اور فکر حریت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
‘الہلال "نے ادبی، سماجی، ثقافتی اور سائنسی مضامین شائع کر کے دوسرے اخباروں سے اپنے کو مختص کر لیا تھا۔ یہی اس کی سب سے بڑی خوبی تھی اور اسی نے اس کو اُردو صحافت کی دُنیا میں ایک نمونہ بنا دیا تھا اور اسی وجہ سے اس کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا مگر ان تمام باتوں کے پیچھے مولانا آزاد کی ذات تھی جو دوسرے درجے کی چیز پسند ہی نہیں فرماتی تھی۔
ان کا خیال تھا کہ : ہندوؤں کے لیے ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنا داخل حب الوطنی ہے مگر آپ (مسلمانوں) کے لیے ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ اس جہاد میں مولانا نے اپنے جسم و جان کی بازی لگا دی تھی ۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جب وہ اس کی فکر سے آزاد ہوئے ہوں۔ انھوں نے بر ملا اس کا اظہار کیا:یہی وہ مقصود ہے جس کے فراق میں 1911 ء سےسلسل فغاں نجی کر رہا ہوں اور جس کے لیے میں نے ‘الہلال’ مرحوم کے صفحات کو کبھی اپنے چشم خونیں کے آنسوؤں سے رنگا ہے اور کبھی اس کے مواد و حروف کے اندر اپنے دل و جگر کے ٹکڑے بچھا دیے ہیں۔ خدا کی قسم کوئی صبح مجھ پر ایسی طلوع نہیں ہوئی جب اس مقصد کی طلب سے میرا دل خالی ہوا ہو اور کوئی شام ایسی گزری نہیں جب میں نے اس تمنا میں بستر غم واندوہ میں بے قراری کی کروٹیں نہ لی ہوں ۔
” الہلال "نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کی۔ ان کے دلوں میں ایمان وایقان کی روشنیاں بھر دیں۔ انھیں بے خوف ہو کر ہندوؤں سے میل جول بڑھانے کی ترغیب دی۔ اس کے نتیجے میں خلافت تحریک اور سوراج موومنٹ چل پڑی۔ حکومت ہند ایسی تحریک کے لیے آمادہ نہیں تھی اس لیے’ الہلال’ کی ضمانت ضبط کی گئی پھر جب ‘البلاغ’ کے نام سے اس کو دوبارہ جاری کیا گیا تو ۱۹۱۶ءمیں حکومت نے مولانا کو نظر بند کر دیا۔ اس کا مفصل بیان مولانا کی زبان سے سنیے: ”یہ” الہلال” مسلمانوں میں احساس بیداری اور جذبہ حریت پیدا کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس نے تین سال کے اندر مسلمانانِ ہند کی مذہبی اور سیاسی حالات میں ایک بالکل نئی حرکت پیدا کر دی "الہلال” نے مسلمانوں کو ایثارو قربانی، ایمان و اعتقاد کرنے کی تلقین کی اور بے خوف ہو کر ہندوؤں سے مل جانے کی دعوت دی۔ اس سے وہ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کا نتیجہ آج متحدہ تحریک خلافت اور سوراج ہے. بیورو کریسی ایک ایسی تحریک کو زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کر سکتی تھی اس لیے پہلے الہلال کی ضمانت ضبط کی گئی پھر جب البلاغ کے نام سے دوبارہ جاری کیا گیا تو ۱۹۱۶ء میں گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے نظر بند کر دیا۔ میں بتلانا چاہتا ہوں کہ الہلال، تمام تر آزادی یا موت کی دعوت تھی“۔ مزید یہ کہ وہ اخبار "الہلال” ہی تھا جس نے حکومت کی ہر خامی کو پر زور طریقے سے قارئین کے سامنے پیش کرنا اپنا مطمح نظر قراردے رکھا تھا۔ اس اخبار نے برطانیہ کے ایوان حکومت میں زلزلہ پیدا کر رکھا تھا۔ اس باعث اخبار کو دو دو بار ضبطی ، ضمانت طلبی کی سزا جھیلنی پڑی۔ پریس کو ضبط کیا گیا اور آخر میں اس کو بند کرنا پڑا۔ بعد میں اس کا احیاء مولانا نے البلاغ میں کیا یہ الگ بات ہے کہ اس میں مذہبی رجحان غالب تھے ۔مولانا آزاد ملک وملت کی حالت زار سے بہت پریشان تھے۔ ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ وہ ہندوستان کو جلد از جلد آزاد د یکھنا چاہتے تھے ۔ ملتِ اسلامیہ کو اسی شان میں دیکھنا چاہتے تھے جو اس کا ماضی تھا۔ وہ ہندوستان کے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستانی بلا تفریق مذہب آزادی کی جنگ میں ایک ہو جائیں اور جلد از جلد انگریزوں کے استبداد سے ملک کو آزاد کرائیں۔
مذکورہ بالا تحریر مولانا آزاد کے متعلق غور و فکرکی دعوت دے رہی ہے کہ کیسی بے قراری تھی، جس نے مولانا آزاد کو ایک لمحہ کے لیے آزاد نہیں کیا۔ یہ وہی خیالات و افکار تھے جو ملک و قوم کو آزاد کرانے کے لیے ان کے دل و دماغ میں ہجوم کیے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ مستقبل پر تھی اور ان کو اپنے ہم وطنوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے مستقبل کو سنوارنے کی فکر تھی جس نے ان کو بے چین کر رکھا تھا۔
تحریر: شیخ محمد عامل ذاکر ندوی
خادم کل ہند تحریک فلاح ملت