(گزشتہ سے پیوستہ سطور میں ایکسیلنس اسکول اور حضرت کے تحریری سرمائے کو فروغ دینے کی بات کہی گئی تھی ۔)
(6)………..ادھورے خواب ,کا یہ عنوان ایک تعمیری سلسلہ ہے جو شخصیت کے روشن افکار وخیالات کو واضح کرتا ہے اورجو بتاتا ہے کہ بند گلی کے باوجود ملت وسماج کے لئے راہ، کس جد وجہد سے بنا کرتی ہے ۔مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی بلاشبہ ایک ایسی عبقری اور کوہ کن صفت شخصیت کا نام تھا ،جہاں ،حوصلہ ،ہمت ،دعوت ،عزیمت،خدمت ،جنون ،پامردی ،جدوجہد ،استقامت،دلیل ،صاف گوئی ،پختہ کاری ،واضح علم وحلم،فہم وفراست ،سنجیدگی اور تدبر وتدبیر کی اہمیت بہت زیادہ تھی ،فکر وفن اورعلم وہنر کے یہ وہ پاٹ پرزے ہیں جس کے بغیر کوئی بھی شخص ان کے سامنے ٹک نہیں پاتا تھا اور جن میں یہ صفات جتنی زیادہ ہوتی تھیں وہ اسی قدر کام کے سمجھے جاتے تھے ۔اسی لئے وہ ہر سطح کے افراد سے رابطہ بناکر رکھتے تھے ، حضرت رحمانی گاہے گاہے فون ضرور کرلیا کرتے تھے،فون سے خبر خیریت لے کر مخاطب کی صلاحیتوں کو مہمیز ہی نہیں کرتے ،بلکہ ملت وسماج کے حوالے سے کچھ ضروری اور اہم کام بھی سونپتے تھے ،سر دست میری معلومات کے مطابق درجن بھر سے زائد نوجوان فضلاء( جو مختلف میدانوں سے وابستہ ) ہیں ،ان سب کو حضرت نے باتوں بات میں کئی الگ الگ ذمہ داریاں دی ہوئی تھیں ،اس طرح نہ صرف وہ نئی عمر کے افراد کو جوڑ کر چل رہے تھے ،بلکہ قیادت وذمہ داریاں سنبھالنے کی صلاحیتوں کو جلا بھی بخش رہے تھے ،یہ ایک بڑا مشن تھا حضرت کا ،اور ملت کی ناخدائی کے جذبے سے "سیکنڈ لائین” تیار کرنے کی خاموش محنت وپلاننگ تھی ۔ یقینا رجال سازی کا یہ منصوبہ نایاب اور بے مثال تھا ،اگر ہماری نئی قیادت اور حضرت کے روحانی ،علمی، فکری جانشین اس منصوبے کو آگے لے کر چلتے ہیں اور” کھوئے ہوئے کی جستجو” کی سمت میں فرد وافراد سے رابطہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سےملت کا بڑا فائدہ ہوسکتا ہے ۔
خوبی کی بات تو یہ تھی کہ ہر میدان کی ابھرتی ہوئی پیڑھی کو وہ چن چن کر آنے والے دنوں کے لئے جمع کررہے تھے ،اگر ایک طرف ملک کا مستقبل ان کے سامنے تھا تو دوسری طرف ہندی مسلمانوں کے مسائل وچیلنجیز کو بھی وہ بہت قریب سے سمجھ رہے تھے ،اس کے مقابلے کے لئے وہ محمود غزنوی ،سلطا ن سبکتگین ،عماد الدین زنگی ،صلاح الدین ایوبی ،خلیفہ عبدالحمید ،محمد بن قاسم ،جلال الدین اکبر،سلیم خاں اول ،شاہ ولی اللہ اور قاسم نانوتوی جیسے ایمان آفریں بطل جلیل کے لشکروں کی تیاری بھی وہ کررہے تھے جو شاملی اور بالاکوٹ کی یاد تازہ کرسکیں۔حضرت رحمانی کا احساس تھا :
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قا فلہ ہو نہ سکے گا، و یر ا ں تیرا
غیر یک بانگ تیرا ،کچھ نہیں ساماں تیرا
مولانا رحمانی ،سیکنڈ لائن کی تیاری میں لگ چکے تھے ،اسی لئے وہ اب نوجوانوں کو آگے بڑھا رہے تھے ، مسلم پرسنل لا بورڈ کے کولکاتا اجلاس میں جو انہوں نے تاریخی خطاب کیا تھا،اس بیان واعلان سے حضرت کے اس عزم ومنصوبے کا بخوبی اندازہ اہل بصیرت لگاسکتے ہیں ،جس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کے قابل ذکر اخبارات نے اس بیان کو تفصیل سے نہ صرف شائع کیا ،بلکہ اپنی ہیڈ لائن میں نوجوان قیادت والی حضرت کی مثالی تقریر کو واضح عنوان کے ساتھ نشر کیا تھا ۔گویا حضرت کا درد دل یوں تھا:
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حر ار ت تیری
کوکب قسمت ا مکاں ہے خلافت تیری
بالیقین اگر حضرت رحمانی کی عمر چند ماہ وسال اور وفا کرتی تو کئی بڑے کاموں کے ساتھ ،خدمتوں کا یہ حصہ بھی ابھر کر سامنے آتا ،مگر اب تو وہ جاچکے اور مدت ہوگیا گئے ہوئے بھی ،مگرمایوسی ہمارے حضرت کے یہاں نہیں تھی ،اس لئے ہم ان کے وصال کے بعد بھی اس جرم کے ارتکاب سے بچتے ہیں ،حضرت کہا کرتے تھے اور اپنے نوخیز جیالوں کی یوں تربیت فرمایا کرتے تھے کہ:
"وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے، وہ پرہیز جو حالات سے گریز سکھائے، وہ صبر جو ظلم مسلسل کی حسین تعبیر تلاش کرے اور وہ برداشت جو بے عملی تک پہنچادے، زندہ افراد اور زندہ اداروں کیلیے نہ قابل قبول ہے نہ گوارہ!”
تا حشر تر ستی رہیں گی یہ نگا ہیں تری دیدکو
اس دل کو وہم وگمان ہی نہ تھا تیری جدائی کا
(جاری)
تحریر: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرا