تحریر: محمد ابوذر عین الحق مفتاحی
قوت فکر و عمل پہلے فناء ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پر زوال آتا ہے
کیا آپ نے کبھی غور وفکر کیا ہے، کہ آپ کی ذات سے دنیا میں کیا پیھل رہا ہے؟اور لوگ آپ سے کیا سمجھ اور سیکھ رہے ہیں، برائی یا بھلائی؟؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی خواہ کسی حیثیت کا ہو علم و مرتبے کے اعتبار سے کسی بھی مقام پر فائز ہو،اس کی ذات سے یا تو برائی پھلیتی ہے یا بھلائی، اس کو دیکھ کر یا تو لوگوں میں نیکی اور بھلائی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، یا برے کاموں کی طرف رغبت ہوتی ہے، ہر آدمی کے تعلقات اور اثرات کا ایک دائرہ ہوتا ہے، کچھ لوگ اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، اور کچھ دوست و احباب ہوتے ہیں،
اور سب ہی لوگ اسکی زندگی سے اچھا یا برا کچھ نہ کچھ ضرور لیتے ہیں، وہ چاہے یا نہ چاہے، اس کی زندگی اور اس کے شب و روز کا عمل اور اس کا عمل و کردار لہجہ و،رویہ لوگوں پر اثر ڈالتا ہے، اور لوگ اس سے اچھا یا برا اثر قبول کرتے ہیں،
سوچنے! آپ بھی اس طرح کے بہت سے رشتوں میں بندھے ہوئے ہونگے، بہت سے لوگوں سے آپ کے بھی تعلقات ہونگے، آپ سب گوناگوں تعلق رکھنے والے یہ سب لوگ آپ سے کیا سمجھ اور سیکھ رہے ہیں? اور آپ کی زندگی ان پر کیا اچھا یا برا اثر ڈال رہی ہے? آپ کی بات چیت افکار وخیالات مشغلے، دلچسپیاں دوڑ دھوپ حوصلے ارادے تمنائیں، آپ کا حسن سکوک آپ کا رویہ غرض بحیثیت مجموعی آپ کی زندگی لوگوں کو کچھ نہ کچھ دیتی ہے، آپ کو محسوس ہو یا نہ ہو وہ لوگوں پر اثر انداز ہوتی ہے، گویا آپ کی زندگی ایک چلتا پھرتا زندگی ہے، جو ہر وقت پڑھا جارہا ہے، یاد کیا جارہا ہے، اور اپنے وقت پر اسکا بدلہ مل کر رہے گا،انشاءاللہ العزیز،
یہ بات تو ہم سب یقینی طور پر جانتے ہے،بلکہ ایمان کا حصہ اچھائی ہو یا برائی اس کا ایک لازمی انجام ہے، جس طرح یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ گردن کٹ کر الگ گرجاۓ اور آدمی نہ مرے ٹھیک اسی طرح یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ ایک برائی کی جائے اور اس کا برا انجام سامنے نہ آۓ،یا کوئی نیکی کی جائے اور اس کا نیک انجام نہ ہو زمین کے کسی کونے پر کہیں کوئی برائی یا بھلائی ہورہی ہے، زمین و آسمان اور کیرامن کاتبین اپنے کتاب میں محفوظ کررہی ہے، یہ انجام ایک نہ ایک دن اس کے سامنے ضرور آئے گا، نہ اس انجام سے بچ کر کوئی شخص زمین و آسمان کے اس دائرے سے کہیں بھاگ سکتا ہے، اور نہ اس انجام کو سامنے آنے سے کوئی چیز روک سکتی ہے، تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دلے گا,
تھوڑی دیر ہم اور آپ غور وفکر اور محاسبہ کیجئے! کیا ہمارے اندر یہ صفات موجود ہے?اگر نہیں ہے تو ہم سب کے لیے افسوس کا مقام ہے، اور اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے،
یہ ایک سچائی ہے،جو پوری تاریخ الاسلام سے بھری پڑی ہیں، پہلے لوگ ایمان والو کو ان کے اعمال حسنہ اخلاق کریمہ اور ان کے رہن سہن افکار وخیالات و کردار سے ایمان کی دولت سے سرفراز ہوتے تھے، آج انکے بالکل بے بر عکس ہے، آج کے مسلمان کے اعمال، رہن سہن افکار وخیالات اور کردار دیکھ کر لوگ مرتد ہورہے ہیں، جو ایک لمحہ فکریہ اللہ تعالٰی سے دلی دعا ہے کہ ہم سب کی غلطیاں کو نیکیوں میں تبدیل فرمائے، اور اپنے اندر اخلاق کریمہ اور اعمال صالح کے جذبات پیدا فرمائے۔ آمین ثم آمین