ازقلم: محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
رابطہ نمبر 9506600725
پانچ ستمبر کو ہندوستان میں ٹیچر ڈے یعنی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے، بچے اساتذہ کی اہمیت پر تقریر کرتے ہیں، اپنے اساتذہ کو گفٹ اور ہدیہ پیش کرتے ہیں، ان کی دعائیں لیتے ہیں اور حکومت بھی اس تاریخ کو اچھے، مخلص اور محنتی اساتذہ کو ان کے حسن کارکردگی پراسناد تمغہ اور ایوارڈ دیتی ہے جس کو صدر جمہوریہ ایوارڈ کہتے ہیں۔ کل پانچ ستمبرکی تاریخ ہے۔ بہت سے احباب اور قارئین کا تقاضہ ہے کہ یوم اساتذہ اور سماج میں اساتذہ کی اہمیت اور کردار پر ایک دن قبل ہی تحریر پوسٹ کردوں، تاکہ اس موضوع پر یوم اساتذہ کے موقع پر اظہار خیال کرنے میں آسانی ہو۔ احباب کی خواہش پر پیشگی اس مضمون کو حاضر خدمت کررہا ہوں، اگر کسی لائق ہو تو اپنی دعاؤں سے ضرور نوازیں گے۔ م ق ن
آج ستمبر کی پانچ تاریخ ہے ہندوستان میں اس دن کو یوم اساتذہ ( Teachers Day ) کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ پوری دنیا میں خاص ڈے اور دن منانا اب ایک رسم اور فیشن سا ہوگیا ہے، ہر مہینہ اور ہفتہ کوئ نہ کوئی ڈے اور دن منایا جاتا ہے ۔ جب کوئی چیز رسم اور فیشن کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ تو پھر اس کی روح ،اہمیت اور حقیقت ختم ہوجاتی ہے ۔ اس لئے سوائے اخبارات میں اکا دکا رسمی بیان اور چند تصاویر کے ایسے موقع پر کچھ نہیں ہوتا ۔ جبکہ اس موقع پر ضرورت تھی کہ ایسے دنوں کے متعلقہ موضوعات اور عنوانات پر سنجیدہ مذاکرات اور پروگرام کئے جائیں ۔ان موضوعات پر گفتگو اور تبادلہ خیال کیا جائے اور ان کی روشنی میں انقلابی تبدیلیوں کی کوششوں کو محرک بنایا جائے ۔
البتہ ۵/ ستمبر کو یوم اساتذہ قدر اہتمام سے ملک میں منایا جاتا ہے اسکولس، کالجیز اور یونیورسٹیوں میں تقریبات ہوتی ہیں اور اساتذہ کے مقام اور مرتبہ اور ان کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور طلبہ کو اساتذہ کے مقام و رتبہ کا احساس دلایا جاتا ہے ۔
اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیم و تدریس سب مہتم بالشان اور نہایت ہی مقدس اور معزز پیشہ ہے ہر مذھب اور سماج و معاشرہ میں اساتذہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اپنے اساتذہ کی بغیر کسی فرق ذات و مذھب لوگ عزت کرتے ہیں کیوں کہ سماج و معاشرہ میں جو کچھ بھلائیاں اور نیکیاں پائی جاتی ہیں اور شوشل ورک اور انسانی وسماجی خدمت کا جو سرو سامان اور بنیاد ہے وہ سب دراصل تعلیم و تربیت ہی کا کرشمہ ہے اور علمی مراکز اور درسگاہیں ان کا اصل سرچشمہ ہے ۔ دنیا میں سب سے بلند رتبہ اور مقام رسولوں اور پیغمبروں کو حاصل ہے ۔ سارے رسول اور پیغمبر اپنی امت کے لئے رسول کی حیثیت کے ساتھ ساتھ معلم کی حیثیت بھی رکھتے تھے ۔ وہ انسانیت کے لئے معلم و مربی بھی تھے ۔ قرآن مجید نے ان کی اس حیثیت کو بیان کیا ہے ۔ یتلوا علیہم آیاته و یزکیھیم و یعلمھم الکتاب و الحمکة ( ال عمران ۱۶۴)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سلسلہ میں منصب رسالت و نبوت کے ساتھ جس حیثیت کو بہت زیادہ نمایاں فرمایا وہ یہ کہ آپ امت کے لئے معلم اور استاد کی حیثیت سے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انما بعثت معلما۔ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ۔
معلم و مدرس کی حیثیت باپ سے بھی بڑھ کر ہے باپ اولاد کے لئے دنیا میں آنے کا ذریعہ اور واسطہ ہے جبکہ استاد بچے کو دنیا برتنے اچھا انسان اور شہری بننے اور رب کی معرفت جاننے اور خدا کو راضی کرنے کا ذریعہ اور واسطہ بنتے ہیں ۔ اسی لئے اساتذہ کا احترام قدر اور عزت اسی قدر ضروری ہے جتنا اپنے والدین کا ۔
روایت میں آتا ہے کہ مشہور صحابی علم تفسیر و حدیث کے سمندر اور حدیث کی نقل و روایت اور فہم و درایت میں اعلی مقام رکھنے والے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس قدر بلند و بالا مقام رکھنے کے باوجود حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی سواری کی رکاب تھام لیتے اور کہتے کہ ہمیں اہل علم کے ساتھ اسی طرح سلوک اور برتاو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (مستدرک حاکم : ۳/۴۲۳)
ہمارے بہت سے اسلاف اور اکابر کے بارے میں ان کی سیرت و سوانح لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کا احترام اس قدر کرتے کہ ان کے گھر کی طرف پیر کرکے سوتے نہیں تھے کہ کہیں بے ادبی نہ ہوجائے اور جب سفر سے واپس ہوتے تھے والدین سے پہلے اساتذہ سے ملنے ان کے گھر پہنچتے دعائیں لیتے اور اگر حیثیت اور گنجائش ہوتی تو ضرور ان کو ہدیہ و تحفہ اور اکرامیہ سے نوازتے ۔
خلف احمر لغت و زبان کے مشہور عالم گزرے ہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان کے شاگردوں میں سے تھے لیکن امام احمد بن حنبل علوم اسلامیہ میں مہارت فقہ و فتاوی میں شہرت اور زہد و تقوی میں اعلی مقام حاصل کرنے میں استاد سے بازی لے گئے لیکن اس کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کبھی ان کے برابر بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ امام شافعی رح امام مالک رح کے شاگرد ہیں کہتے ہیں کہ جب میں امام مالک کی مجلس کے سامنے ورق پلٹتا تو بہت نرمی سے کہ کہیں آپ کو تکلیف اور بار خاطر نہ ہو ۔ حضرت موسی علیہ السلام منصب نبوت اور مقام رسالت پر فائز تھے اس کے باوجود جب حضرت خضر سے استفادہ کے لئے گئے تو بہت ہی صبر و تحمل کے ساتھ ان کی باتوں کو برداشت کیا اور بار بار معذرت خواہی فرمائی ۔ امام ابو حنیفہ رح نے اپنے صاحبزادے کا نام اپنے استاد کے نام پر حماد رکھا ۔ امام صاحب کے ادب کا یہ حال تھا کہ اپنے استاد امام حماد کے مکان کی طرف پاوں کرنے میں بھی لحاظ ہوتا تھا ۔ قاضی ابو یوسف رح کو اپنے استاد امام ابو حنیفہ سے ایسا تعلق تھا کہ جس روز بیٹے کا انتقال ہوا اس روز بھی اپنے استاد کی مجلس درس سے غیر حاضری کو گوارہ نہیں کیا ۔ امام ابو حنیفہ رح کی نگاہ میں استاد و معلم اور اتالیق کا کتنا مقام و مرتبہ تھا کہ اپنے بیٹے حماد کی جس دن رسم باسم اللہ کرائ تو اس استاد کو بیس پچیس ہزار دینار و درہم سے نوازا اور یہ کہا کہ ابھی اتنا ہی ہے اگر اور ہوتا تو وہ سب بھی نذر اور ہدیہ کردیتا ۔
ماضی قریب میں مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رح نے بہت سے طلبہ کی کفالت کی اپنے خرچ سے ان کو اعلی تعلیم دلائ پھر وہ اعلی عہدے پر پہنچے مولانا مشیر الحق بحری آبادی ندوی سابق وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی ان کے خاص شاگرد تھے جن کی انہوں نے ہر طرح سے تربیت اور کفالت کی ۔ مولانا احتشام الحق ندوی سابق پروفیسر عربی کالی کٹ یونیورسٹی بھی ان کے خاص شاگردوں میں ہیں جو بقید حیات ہیں ۔
بہت دور زمانہ نہیں گزرا کہ لوگ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے اتالیق اور مربی رکھتے تھے اور ایسے ماہر فن علم و عمل کے جامع مربی و اتالیق مل جاتے تھے جو بچوں کی صحیح تربیت کرسکیں ۔ ان کو بڑی عزت حاصل ہوتی اور وہ فکر دنیا سے بھی مستغنی اور بے نیاز ہوجاتے ۔ اتالیقی ایک معزز عہدہ اور پیشہ تھا بڑے بڑے عادل اور نیک حکمراں کے پیچھے ان کے اتالیق کی تعلیم و تربیت ہی کار فرما تھے جنہوں نے ان بادشاہوں کے دل و دماغ کو بدل دیا اور ان کا مزاج اسلامی اور دینی بنا دیا ۔ اس زمانہ میں اساتذہ علم و عمل اخلاق و کردار ادب و احترام کے اعلی مقام پر فائز ہوتے طلبہ کے حق میں مخلص ہوتے ان سے دنیاوی کوئی لالچ نہیں رکھتے اشراف نفس سے بھی بچتے اس کو حرام و ناجائز سمجھتے طلبہ کی پریشانی اور دقت کو اپنی پریشانی سمجھتے اور ایک بڑی تعداد ایسے اساتذہ کی تھی جو تعلیم کے ساتھ اپنی طرف سے ان کی مالی کفالت بھی کرتے تھے ۔ امام یوسف رح کی تعلیم و تربیت کے سارے اخراجات امام ابو حنیفہ رح نے برداشت کئے کیونکہ ان کے والد غریب تھے دھوبی کا کام کرتے تھے۔ سلف صالحین کو اپنے شاگردوں سے ایسی محبت ہوتی تھی کہ ان کے نجی دشواریوں کو بھی حل کرتے تھے ۔ امام شافعی رح یتیم و غریب طالب علم تھے ۔ امام مالک رح نے اپنے اس ہونہار شاگر کو خود اپنا مہمان بنایا اور جب تک مدینہ میں رہے ان کی کفالت کرتے رہے ۔ پھر جب وہ حصول علم کی خاطر کوفہ کی جانب جانے لگے تو سواری اور سفر خرچ کا انتظام اپنے جیب خاص سے کیا ۔ اور نہایت محبت سے رخصت کیا ۔ جب امام شافعی رح امام محمد رح کے حلقہ درس میں آئے تو امام محمد نے ان کی یتیمی اور غریبی کا بے حد خیال رکھا بلکہ بھر پور تعاون کیا ۔ معمولی اور بوسیدہ کپڑا پہن کر آئے تھے ان کو قیمتی جوڑے دئے اور جب وہ استفادہ کرکے جانے لگے تو ایک ہزار درہم ہدیہ دیا ۔ ہمارے اسلاف طلبہ کا کس قدر خیال رکھتے تھے اور ان سے کس قدر محبت کرتے تھے اس کا اندازہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس جملہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنے شاگردوں کی نسبت فرمایا کرتے تھے ۔ کہ اگر ان پر ایک مکھی بھی بیٹھ جاتی ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ ( مستفاد از دینی و عصری تعلیم مسائل اور حل مولفہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۲۵۲- ۲۵۳ )
لیکن افسوس کہ یہ روایات ماضی کی یہ تاریخ اور نقوش سب مٹتے جارہے ہیں اساتذہ اور طلباء کے درمیان محبت و شفقت اور احترام و عقیدت کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے علم کی روح ختم ہوتی جارہی ہے اس کی برکت مٹتی جارہی اور بے احترامی اور بے ادبی کی وجہ سے اساتذہ سے جو فیض حاصل ہونا چاہیے وہ ختم ہوتا جارہا ہے ۔ آج تدریس عبادت نہیں بلکہ ایک پیشہ اور تجارت اور ملازمت بن گئ ہے ۔ تعلیم کو اساتذہ صرف ذریعہ معاش خیال کرنے لگے ہیں ۔ ان کی ہوس اونچی تنخواہ پاکر بھی پوری نہیں ہوتی وہ اپنے طلبہ کو گھر بلا کر مہنگے ٹیوشن پڑھاتے ہیں اور یہاں اپنی صلاحیتوں کو مظاہرہ کرتے ہیں ۔ بہت سے بھرتی کے اساتذہ ہوتے ہیں جو رشوت اور تعلق سے اس عہدے تک پہنچ جاتے ہیں علمی لیاقت نہیں ہوتی ہے اس لئے طلبہ کی زندگی برباد کرتے ہیں ۔
یوم اساتذہ (جو دن کے صرف ایک رسم علامت اور ایک شناخت کے طور پر منایا جاتا ہے جس کی کوئ شرعی اور دینی حیثیت نہیں ہے) یہ دن اور ڈے ہمیں یہ پیغام دے رہا
کہ طلبہ اپنے اساتذہ کا مقام اور مرتبہ سمجھیں اور انکا احترام اور انکی عزت کریں تو دوسری طرف اساتذہ کو بھی آج کا یہ دن اور آج کی تاریخ مہمیز لگا رہی کہ وہ اپنے منصب اور مقام کو کما حقہ سمجھیں اور اس منصب اور مقام کے گریمہ معیار اور کوائلٹی میں کوئ کمی نہ آنے دیں ۔ خدا کرے طلبہ اور حضرات اساتذہ کو بھی یہ باتیں سمجھ میں آجائے ۔ آمین
ناشر / مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725