اخلاقیات کو درپیش چیلنجز

ازقلم : شیرین خالد (پونہ)

آزادی انسانی سماج کی اہم بنیاد ہے تصور آزادی کو ہر مکاتب فکر اور فلسفہ نے قبول کیا ہے۔اور اس کی مختلف وضاحتیں پیش کی ہیں آزادی عربی لفظ حریت) freedom کا ترجمہ ہے۔1789ء میں حقوق انسانی کے اعلامیہ میں کہا گیا”آزادی یہ ہے کہ فرد کو اس بات کا حق حاصل ہو کہ وہ جو چاہے کرے بشرط یہ کہ اس س کے عمل سے دوسروں کو کوئی ضرر لاحق نہ ہو”. حقیقی آزادی بنیادی طور پر اخلاقیات سے جڑی ہوتی ہیں ۔اخلاقیات کے بغیر آزادی میں ظلم و جبر پیدا ہوتا ہے ،جسں میں ناانصافی ہوتی ہے ،نا انصافی کی شکلیں بد لتی رہتی ہے۔اخلاقی اقدار کےساتھ آزادی میں لیے گئے فیصلے راست بازی کے اصولوں کے مطابق انصاف پر قائم ہوتے ہیں ۔ جب معاشرے میں اخلاقی اقدار قائم ہوتے ہیں تو معاشرے کےاندر حقوق کے حصول اور فرائض کی ادائیگی میں ہم آہنگی پائی جاتی ہیں ۔آزادی میں اخلاقیات کا عنصر نہ ہو تو اس کی جگہ ظلم جب زیادتی نا انصافی معاشرے میں جگہ بنا لیتی ہے۔ اخلاقیات کے بغیر آزادی کے نتیجے میں اج ہم سماج میں بہت سے چیلنج دیکھتے ہیں نام نہاد ازادی my life my choice( میری زندگی میری مرضی) جیسے نعروں نے آج سماج میں اخلاقیات کو برقرار رکھنے میں بہت بڑے خطرات لاحق کیے ہیں معاشرے میں مادہ پرستی کا بڑھتا رجحان، معاشرے میں رد اور قبول کے پیمانے اور تصورات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ایسے کام جو کل تک ناقابل قبول اور بے شرم اور معیوب سمجھے جاتے تھے آج وہ فخر سے اور قانونی اجازت کے ساتھ انجام پا رہے آج فحاشی وعریانیت ، ننگا ناچ اور حیا سوز ذرائع ابلاغ ہر گھر اور خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ۔ بے شمار رسائل وجرائد اور اخبارات بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں ۔انٹر نیٹ پر اَن گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے ۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازار تک بے حیائی پر مبنی ماحول کا سامنا ہے۔ ایسا معا شرہ اور فضا نوجوان کی جنسی خواہشات کو بر انگیختہ کر دیتی ہیں ۔ بے حیائی اخلاق باختگی ایک ایسی وبا ہے جو بڑی تیزی کے سا تھ اپنے اثرات دکھا رہی ہے جس کی بدولت آج نوجوانوں میں خوف تناؤ، ذہنی اور نفسیاتی پریشانیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں ۔ برائیوں ، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل اخلاق دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھا ئے جارہے ہیں ۔ معاشرے کے اس اخلاقی بگاڑ کی وجوہات پر غور کرے تو سب سے پہلے گھروں کے اندر بے راہ روی اس کی اہم وجہ معلوم ہوتی ہے۔والدین نے اپنی ذمہ داری اور فرض کو فراموش کر رکھا ہے فرد کی تربیت جو کہ اس کے اپنے گھر سے اس کی شروعات ہوتی ہیں لیکن یہ گھر کا ماحول ہی آج اسے تمام قسم کی بد اخلاق کی تربیت کر رہا ہے والدین اولاد کی ہر مادی ضرورت کو دن رات کی محنت کر کے پورا کرنےکو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر ان کی کردار سازی ان کے اخلاق کی تعمیر جو کہ ان کا فرض اولین ہے اس پر عدم توجہی محسوس ہوتی ہیں۔ اللہ رب العین فرماتے ہے
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ (تحر یم:6(

ترجمہ:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خُو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں”
اولاد کے ساتھ وقت کی کمی ،والدین کے آپسی جھگڑے اور گھر کا بد اخلاق ماحول بچوں میں بد اخلاقی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اسی کے ساتھ دوسری چیز جو بد اخلاقی میں اضافہ کرتی ہے معاشی عدم مساوات ،معاشی اعتبار کے معاشرہ دو طبقات میں بٹ گیا ہے ایک امیر طبقہ دوسرا غریب تر طبقہ ہے جو اپنی معاشی سطح کو بلند کرنے کے لیے تمام جرائم اور بد اخلاقیوں میں مبتلا ہے ،اور امیر طبقہ اپنے مال و اسباب میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کرتا ہے جس سے معاشرے میں بد اخلاقی فحش عریانیت اور اس طرح کی تمام برائیاں کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع فراہم ہوتا ہے مادہ پرستی کی بھوک نے اخلاق کی تمام قدروں کو پامال کیا ہے۔ اسی طرح تعلیمی نظام کا بگاڑ بڑی تعداد پیمانے پر خرابی کی وجہ ے تعلیمی نظام معاشرے کی روحانی اور مادی ترقی میں اہم رول ادا کرتا ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام جو مغربی اصولوں پر مبنی جو صرف مادہ پرستی اور سامراج کی تعلیم پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے نوجوان انتشار کے شکار ہیں۔ اسی طرح اس کی چوتھی وجہ سیاسی نظام کا بگاڑ ہے سیاسی نظام جس کی ذمہ داری اپنے ملک اور قوم کو نقائص اور مسائل محرومیاں سے نکال کر مجموعی طور پر ترقی کی طرف لے جانا ہوتا ہے جسے خدمت انسانیت کہا جاتا ہے لیکن آج سیاسی نظام کا مفہوم بھی تبدیل ہو چکا ہے لوٹ کھسوٹ اقلیت کے ساتھ ظلم جبر ناجائز بالادستی نا انصافی ہے ظالموں اور مجرموں کے ساتھ رحم اور درگزر ہیں اور مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ ناانصافی ہیں ہونا یہ چاہیے تھا کہ مظلوم اور کمزوروں کے ساتھ رحم و انصاف ہوتا سیاسی مفاد اور منافقت کا بازار گرم ہے۔ اسی طرح گھروں کے بگڑے ماحول معاشی عدم مساوات تعلیمی نظام کا بگاڑ اور سیاسی نظام کا بگاڑ معاشرےکے اخلاقی بگاڑ کو بڑے پیمانے پر بڑھاوا دے راہا ہے۔اس کے برے نتائج ہمیں نظر آتے ہیں اس بے لگام ازادی ذہنی غلامی اور روشن خیال نے معاشرے کی حالات کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی آبادی کا نصف شادی سے پہلے لیو اینڈ ریلیشن شپ میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ پورونو گرافی کی صنعت دنیاکی سب سے زیادہ آمدنی والا بزنس بن گیا ہے۔ پورونو گرافی کے بزنس نے 97 بلین ڈالر کی کمائی کی ہے ان ویب سائٹس کو اتنی آمدنی کمانے کا موقع جن وزٹرز ملا ہے ان کی عمر 13 سال سے 18 سال کی عمر کے 73فی صد نوجوان بچے ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال بہت ہی خوفناک ہے اللہ سبحانہ و تعالی فر ماتے
اَفَرَءَيۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلۡمٍ وَّخَتَمَ عَلٰى سَمۡعِهٖ وَقَلۡبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً  ؕ فَمَنۡ يَّهۡدِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰهِ‌ ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۞ (الجا ئيه:23) "پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا”.
اسی طرح کی صورتحال ذہنی امراض کی ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 980 ملین افراد زہنی امراض کا شکار ہیں ڈپریشن عام ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ سکون کی تلاش میں شراب کی لت میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے ہمارے ملک میں 16 کروڑ افراد نشہ کرتے ہیں۔نشے کی لت، پورنوگرافی،فحاشی اور عریانیت سے بھرے ویب سائٹس نے ایک طرف انسانوں کو ذہنی امراض کا شکار بنایا ہے تو دوسری جانب خودکشی کے گراف کو بھی تیزی سے بڑھا دیا ہے دنیا بھر میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے مر جاتے ہیں یہ خدا پرستی سے آزاد اور مادہ پرستی نفس کی غلامی کا نتیجے میں معاشرے میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ان خرابیوں نے انسانی معاشرے کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ظَهَرَ الۡفَسَادُ فِى الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ بِمَا كَسَبَتۡ اَيۡدِى النَّاسِ لِيُذِيۡقَهُمۡ بَعۡضَ الَّذِىۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ( سورۃ الروم:41)
"خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزّہ چکھائے اُن کو اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔”
مغرب نے آزادی کے نام پر جس طرح اپنے معاشرے میں بگاڑ اور فساد برپا کیا ہے ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اگر ہم اسی طرح ان کے نقش قدم پر چلیں گے تو بہت جلد ہمارا ملک بھی مغرب کی طرح اخلاقی بحران کے زد میں ہوگا۔ اس بڑھتے ہوئے طوفان کو روکے اور کی تر غیب ہمیں دین اسلام پیش کرتا ہے۔ اسلام ایک الٰہی دین کی حیثیت سے انسانی تہذیب کے تمام امور کیلیے مخصوص اصول فراہم کر تاہے۔ اسلام تمام انسانوں کیلئے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ساتھ ہی فرد کےانفرادی اور سماجی حقوق کو اللّٰہ کی مرضی کے تابع قرار دیتا ہے ۔اور آخرت کی جواب دہی کا احساس انسانوں کو ہر قسم کی بد اخلاقی فحش عریانیت اور جنسی بے راہ روی سے روکتا ہے۔ يُرِ يْدُاللّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدٍ يَكُمْ سُنَنَا لَّذِ يْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ يَتُوْبَ عَلَيْكُمْ وَا للّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ(النساء :26)
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ان طریقوں کو واضح کرے اور انہیں طریقوں پر تمہیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صالح کرتے تھے وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے وہ علیم بھی ہیں اور دانہ بھی ہے اور دانا بھی” (النساء:26)
لہذا ضابطہ اخلاق کی کڑیاں ہی معاشرے کو ہر قسم کی برائیوں سے بچا سکتی ہے اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں معاون ومددگار ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے