1903ء ، 25 ستمبر 1903 ، سید احمد حسن کے ہاں ، اورنگ آباد ( حیدرآباد دکن ) میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی ولادت ۔
ــــــــــــــــــ
1913ء ، گھر پر عربی فارسی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ فوقانیہ کی جماعتِ رُشدیہ میں داخلہ ۔
ــــــــــــــــ
1914ء ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم پر ایک مختصر مضمون لکھا ( 11 سال کی عمر میں )
ـــــــــــــــ
1915ء ، قاسم امین کی عربی کتاب ” المراۃ الجدیدۃ ” ( جدید خاتون ) کا اردو ترجمہ کیا ، جو چَھپ نہ سکا ۔
ــــــــــــــ
1916ء ، میٹرک کے بعد دارالعلوم حیدرآباد دکن کی جماعت ” مولوی عالم ” ( انٹرمیڈیٹ ) میں داخلہ ، مگر والد گرامی پر فالج کے حملے کی خبر سن کر سلسلہء تعلیم منقطع ، والدہ کے ساتھ بھوپال چلے گئے ۔
ـــــــــــــ
1918ء ، بڑے بھائی سید ابوالخیر مودودی کے ھمراہ ڈیڑھ دو ماہ تک اخبار ” مدینہ ، بجنور ” میں کام کیا ۔ تحریک خلافت اور انجمن اعانتِ نظربندانِ اسلام کی سرگرمیوں میں شرکت ۔ رسالہ ” معارف اعظم گڑھ ” کے شمارہ اکتوبر میں پہلے علمی مضمون ‘ برق یا کہربا ‘ کی اشاعت ۔
ــــــــــــ
1919ء ، ” تاج جبل پور ” کی ادارت سنبھالی ۔
ــــــــــــ
1920ء ، والد گرامی سید احمد حسن کا انتقال ۔ روزنامہ ” زمیندار ” 22 جون میں ” سامراج کی لُغت میں دوستی کا مفہوم ” شائع ھوا ۔
1921ء ، اخبار ” مُسلم ، دہلی ” کے مدیر مقرر ھوئے ۔ مصطفےٰ کامل کی کتاب ” المسئلۃ الشرقیہ ” کا اردو ترجمہ کیا جو بہت بعد ( 1994) میں شائع ھوا ۔
ـــــــــــ
1925ء ، جمعیت العلماء ھند کے اخبار ” الجمعیۃ ” کے مدیر مقرر ھوئے ۔
ـــــــــ
1926ء ، مولانا محمد شریف اللہ خان سواتی، مُدرّس دارالعلوم فتح پوری دہلی سے علومِ عقلیہ و ادبیہ و بلاغت اور علومِ اصلیہ و فرعیہ میں سندِ فراغت حاصل کی ۔
ــــــــــ
1927ء ، ” الجہاد فی الاسلام ” کے سلسلہء مضامین کا آغاز ۔۔
مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی سے حدیث ، فقہ اور ادب میں سندِ فراغت و تدریس حاصل کی ۔۔
ـــــــــ
1928ء ، ” الجمعیۃ ” اخبار کی ادارت سے علیحدگی ۔
مولانا اشفاق الرحمٰن کاندھلوی سے جامع الترمذی اور موطا امام مالک کی سمع و قراءت کی تکمیل کے بعد سندِ فراغت حاصل کی ۔
ـــــــــ
1930ء ، دارالمصنفین، اعظم گڑھ سے ” الجہاد فی الاسلام ” کی کتابی اشاعت ۔
دہلی ، بھوپال اور حیدرآباد دکن کے سفر ۔
1931ء – محمد صدرالدین شیرازی کی کتاب ” الحکمۃ المتعالیہ فی الاسفار العقلیہ ” معروف بہ ” الاسفار اربعہ ” کے حصہ دوم کا ترجمہ کیا مگر شائع نہ ھو سکا ۔
ـــــــــــــ
1933ء – مئی ، ترجمان القرآن کی ادارت کا آغاز ، جو وفات تک جاری رھا ( آج بھی جاری ھے )
ـــــــــــــ
1936ء – چودھری نیاز علی خان سے سلسلہ مراسلت کا آغاز ۔
اکتوبر ۔ علامہ اقبالؒ نے مولانا مودودی کو حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب چلے آنے کی دعوت دی تاکہ احیائے اسلام کے سلسلے میں فقہ اسلامی کی تدوین اور دیگر علمی نوعیت کے کام کیے جائیں ۔
ـــــــــــــ
1937ء – مارچ ، سیدہ محمودہ بنتِ سید نصیرالدین شمسی سے عقدِ مسنونہ ۔
جولائی ۔ علامہ اقبالؒ کی جانب سے مولانا مودودیؒ کو بادشاہی مسجد لاھور کی امامت کی پیشکش ۔ مگر مولانا مودودی نے بطورِ ملازمت اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔
اگست – علامہ اقبالؒ سے ملاقات ۔
نومبر – مولانا مودودی نے ادارہ دارالاسلام کا تعارف لکھ کر ترجمان القرآن میں شائع کیا ۔
ـــــــــــــ
1938ء – ترجمان القرآن کا دفتر حیدرآباد دکن سے جمال پور ، پٹھان کوٹ منتقل ۔
مولانا مودودی حیدرآباد دکن سے ھجرت کر کے جمال پور پہنچے ۔
ستمبر ۔ مضمون ” نماز میں آلہ مُکبّر الصوت ( لاؤڈ اسپیکر ) کا استعمال ” شائع ھوا ۔
تاسیس ادارہ دارالاسلام ۔
اکتوبر ۔ مسلمانانِ ھِند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تین حَل تجویز کیے ۔ تیسرا حَل تقسیمِ ھندوستان تھا ۔ ( ھندو انڈیا اور مسلم انڈیا ) ۔
ــــــــــــــ
1939ء – ادارہ دارالاسلام ، ترجمان القرآن کا دفتر اور خود مولانا مودودی لاھور منتقل ھو گئے ۔
اپریل ۔ یومِ اقبال لاھور کے جلسے میں مقالہ ” جہاد فی سبیل اللہ ” پڑھا ۔
اکتوبر ۔ پریس برانچ لاھور میں طلبی ، حکومت کی جانب سے معافی نامہ داخل کرانے کی ہدایت ، مولانا مودودی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔
اسلامیہ کالج لاھور میں اسلامیات کے اعزازی پروفیسر کے طور پر تقرر ۔
انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہُڈ لاھور کے جلسے میں ” اسلام کا نظریہ سیاسی ” کے موضوع پر خطاب ۔
ــــــــــــ
1940ء – ایم اے او کالج امرتسر کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد پر صدارتی مقالہ ” خطبہ تقسیمِ اسناد ” پڑھا ۔
” اسلامی حکومت کس طرح قائم ھوتی ھے ” کے موضوع پر انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کے تحت مُسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب ۔
ستمبر ۔ یو پی مسلم لیگ نے مجلس نظام اسلامی قائم کی جس کے ارکان تھے ، سید سلیمان ندوی ، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور مولانا مودودی ۔
ستمبر ۔ انگریز حاکموں کے ایما پر مقامی اہل کاروں کی مخالفت کے باعث اسلامیہ کالج لاھور میں تدریس کا سلسلہ ختم ھو گیا.. ( سیّد مودودیؒ ۔ علمی و فکری مطالعہ )