فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کے زیر اہتمام مسجد عمر فاروق موضع راما پور عرف بشن پور میں دینی واصلاحی پروگرام کا انعقاد
سدھارتھ نگر: 27 ستمھر
ہم لوگ جس دور سے گزر رہے ہیں یہ دجالی دور ہے۔دجال کے پیروکار ،کفروشرک کے پجاری، نیوورلڈآڈرکےقیام کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس لیے ساری دنیا کی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کو بیخ وبن سے اُکھاڑپھینکنے پر تلی ہوئی ہیں۔ احادیث میں قرب قیامت کی علامات میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ نہر فرات سے سونے کا پہاڑ نکلےگاجس کے حصول کے لیے زبردست رسہ کشی ہوگی جس میں سو میں سے نناوےقتل ہونگے(مسلم و مشکوۃشریف)چنانچہ بعض علما کے مطابق یہ سونے کا پہاڑ تیل (پٹرول)کی شکل میں نکل چکا ہے۔ اور دنیا کی بیشتر ضروریات اسی پر منحصر ہونے کی وجہ سے پٹرول پر قبضہ کی جنگ بھی چھڑ چکی ہے، جس کی وجہ سے چہار دانگ عالم میں بے شمار مسلمان قتل ہورہے ہیں۔ یہ (مادی وسائل پر قبضہ) بھی دجالی حکومت کے قیام کی تیاری کا ایک حصہ ہے… اس کے علاوہ ساری دنیا پر قبضہ کے لیے ان لوگوں نے یہ منصوبہ تیارکیاکہ دنیا کی آبادی کم کردی جاےجس کے لیے انہوں نے دو طریقے اختیار کئے۔۱۔ جنگ کے ذریعے، ۲ ۔ مصنوعی وباؤں کے زریعے لوگوں کو ہلاک کیا جاے۔
ایسے پرفتن ماحول میں مسلمانوں کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہےکہ وہ اپنے ایمان کی فکر کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اسلام کی بدنامی کا اندیشہ ہو، دین کو زندہ رکھنے کی جو فکریں ۲۴گھنٹےاجتماعی طور پر ہوتی تھیں اب اپنے مقام پر رہ کر وہ فکر کریں، مایوس نہ ہوں کہ مایوسی اہل کفر کا وطیرہ ہے(سورۃ یوسف ؍آیت ۸۷) حالات خواہ کتنے ہی مخالف ہوں ذرا بھی نہ گھبرائیں، حالات کے لحاظ سے جتنا کرسکتے ہیں کریں۔ دین کی حفاظت کی ذمہ داری تو الله رب العزت نے لے رکھی ہے(سورۃ الحجر؍آیت ۹) اس لیے دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتا ۔ ہاں! حالات کی سنگینیوں سے لوگ اسلام سے پھر سکتے ہیں اس لیے ایسے حالات میں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ دور فتنوں کا دور ہے، آزمائش اگر جان پر یا مال واسباب پر آے تو یہ بڑی آزمائش نہیں، بلکہ اگر دین وایمان پر آزمائش آے اور ہمارا تعلق ایمان اور اہل اسلام سے ختم ہوجاے تو یہ بڑے خسارے والی بات ہے، کہیں ایسا نہ ہوکہ دشمن کے دجل وفریب کاشکار ہوکر لاک ڈاؤن کے بعد بھی مسلمان اس جماعت کو اور اس کے کاز کو برا سمجھتے ہوے مخالفت ومتارکت پر اُتر آئیں… اگر ایسا ہواتو یہ بڑے ہی خسارے والی بات ہوگی۔ الله محفوظ رکھے۔حفاظت ایمان کی کوشش الله کو بہت پسند ہے:ایسے حالات میں ایمان کو سنبھالے رکھنا، اسلام اور اہل اسلام کا دفاع کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے، اسی لیے وہ چند مخلص بندے جنہوں نے اپنا ایمان بچانے کی خاطر کہف نامی غار میں پناہ لی تھی ، الله رب العزت نے اپنے کلام پاک میں(سورۃ الکہف؍آیت۹تا۲۲میں)انکا تذکرہ کرکے انہیں تاریخی بنادیا. نیز ان کے غار کے نام سے ایک مکمل سورۃ نازل فرمادی۔ حدیث نبوی ﷺ کے مطابق جمعہ کے دن اس سورۃ کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت دجالی فتنوں سے بچاؤکا موثر ذریعہ ہے(مسلم شریف) اسی لیےموجودہ دور میں ہر دن کم از کم ایک بار ان آیات کی تلاوت کا اہتمام ہر شخص کو کرنا چاہیے۔
آج کل لوگ کہہ رہے ہیں کہ:جان سلامت تو جہاں سلامت… لیکن اس سے اہم یہ بات ہے کہ:ایمان سلامت تو دونوں جہاں سلامت۔ اس لیے اصل اور حقیقی دولت کی سلامتی کی فکر ہونی چاہیے۔
یہ دنیا دھوکہ ہے: ایمان کے مقابلہ میں دنیا اوراسکی
چمک دمک کی کوئی حیثیت نہیں، ایک وقت آےگا کہ ہر شخص کہے گا:خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا…اور دنیاوی زندگی حقیقیۃ ًایک خواب ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے:الناس نیام فاِذا ماتو انتہبوا…کہ سارے لوگ سوے ہوے ہیں، موت ہی انہیں نیند سے بیدار کریگی۔(الدررالمنتثرہ للسیوطی؍ ۱۳۳)
اس لیے موجودہ دور کے حکمرانوں کی طاقت ودبدبہ سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں، کہ یہ ایک مسلمان کاشیوہ نہیں ان جیسے ہزاروں ظالم وجابر حکمران آئے اور چلے گئے اسی طرح ایک دن یہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس لیے دل میں دنیا کی بے وقعتی پیدا کریں اور الله رب العزت کی کبریائی انکی بادشاہت اور انکی عظمت دل میں پیوستہ کریں، قرآن واحادیث کا مطالعہ کریں جس سے الله کی بڑائی دل میں جاگزیں ہوگی، جب دل الله کی عظمت وہیبت سے معمور ہوگا تو دنیا کی ساری طاقتیں ہیچ معلوم ہونگی اور ایمان بھی پختہ ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار مولانا شفیق احمد سنابلی نے فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کے بینر تلے راما پور عرف بشن پور پوسٹ کرہیا گوشاییں اٹوا میں منعقد پروگرام میں کیا
اس کے بعد شیخ معین الدین سلفی نے نبی کریم کی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوۓ کہا کہ رسولِ اکرم ﷺ جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے اور نبوت سے سرفراز کیے گئے وہ دور دنیا کا نہایت عجیب اور تاریک ترین دور تھا، ظلم وستم، ناانصافی و حق تلفی، جبر وتشدد، خدافراموشی و توحید بیزاری عام تھی، اخلاق وشرافت کا بحران تھا، اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزارہے تھے، ہمدردی اور محبت کے جذبات، اخوت و مودت کے احساسات ختم ہوچکے تھے، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑااور سالہاسال تک جنگ وجدال کا سلسلہ چلتا تھا، ایسے دور میں آپ ﷺ تشریف لائے، اور پھر قرآنی تعلیمات ونبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدلا،عرب وعجم میں انقلاب برپاکیا، عدل وانصاف کو پروان چڑھایا،حقوق کی ادائیگی کے جذبوں کو ابھارا،احترامِ انسانیت کی تعلیم دی، قتل وغارت گری سے انسانوں کو روکا، عورتوں کومقام ومرتبہ عطاکیا، غلاموں کو عزت سے نوازا،یتیموں پر دستِ شفقت رکھا،ایثاروقربانی، خلوص ووفاداری کا مزاج بنایا،احساناتِ خداوندی سے آگاہ کیا، مقصدِ حیات سے باخبر کیا،رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا،جبینِ عبدیت کو خدا کے سامنے ٹیکنے کا سبق پڑھا یااور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی، تاریکیوں کے دور کا خاتمہ فرمایا،اسلام کی ضیاپاش کرنوں سے کائنات ِ ارضی کو روشن ومنور کردیا۔ آپ ﷺ نے فرد کی اصلاح کی، معاشرہ کو سدھاراکہ بجا طور پر کہا جاگیاکہ :
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
بعدہ کلیم اللہ ریانی نے تربیت اولاد کے طریقے قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرماتے ہوۓ کہا:بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوںگے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔ لفظِ ’’تربیت‘‘ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنہیں اقسام میں سے ایک اہم قسم اور شاخ ہے۔ آسان الفاظ میں ’’تربیت‘‘ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:’’ برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ’’تربیت‘‘ ہے۔ ‘‘ تربیت کی دو قسمیں: تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: ۱:…ظاہری تربیت،۲:…باطنی تربیت ۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنہیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘‘۔ (التحریم:۶) ترجمہ:’’اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔
پروگرام کا آغاز فلاح انسانیت ٹرسٹ اٹوا کے نگران اعلی حافظ وقاری صفی الرحمن فرقانی کی تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا پروگرام کی صدارت مولانا مبارک اللہ سلفی نے انجام دیا اس پروگرام میں عوام وخواص کی اچھی تعداد موجود تھی۔