بہار میں بھیانک سیلاب ، کئی اضلاع کے لوگ پریشان ، جلد راحت رسانی کی ضرورت


بہار بالخصوص شمالی بہار سے بہت سی ندیاں گزرتی ہیں ، ان میں سے بہت سی ندیاں نہایت ہی خطرناک ہیں ، ان ندیوں کا دھارا بہت تیز ہوتا ہے ، اس کا رخ جس طرف ہو جاتا ہے ، ہر جگہ تباہی مچ جاتی ہے
بہار میں سیلاب کا انا کوئی نئی بات نہیں ہے ، ہر سال سیلاب میں بہت سے آدمی مر جاتے ہیں ، جانور بہہ جاتے ہیں ، باندھ ٹوٹ جاتے ہیں ، جس کی وجہ سے بہت سے گاؤں کا وجود تک ختم ہو جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ جب نیپال میں پانی بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو کوسی ندی پر بنے براج کے پھاٹک کو کھول دیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے بڑی تباہی آجاتی ہے ، شمالی بہار کی ندیوں میں کوسی ، کملا ، گنڈک ، بوڑھی گنڈک وغیرہ ندیاں نہایت ہی خطرناک ہیں ، اسی طرح جنوبی بہار میں گنگا ندی کے پانی سے تباہی آتی ہے ، ان ندیوں سے سیلاب کا پانی اتنا آتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے تباہی مچ جاتی ہے ، بچاؤ کا موقع نہیں ملتا ہے ، اور لوگوں کے گھر ، سامان ، جان ، مال سبھی سیلاب میں بہہ جاتے ہیں
ایسا نہیں کہ سیلاب کا یہ سلسلہ کوئی نیا ہو ، یہ تو ہر سال آتا ہے ،اور لوگ اس طرح کی تباہی و بربادی کا سامنا کرتے ہیں ، جب تک سیلاب کا پانی رہتا ہے ، لوگوں میں بے چینی رہتی ہے ، جیسے ہی پانی کم ہوا ، تکلیف ختم ، بے چینی ختم ، سب کچھ بھول کر پھر اپنے آشیانے کو بنانے میں لگ جاتے ہیں ، پھر حکومت بھی چین کی نیند سوجاتی ہے ، جبکہ حکومت کو چاہئے کہ اس کے تدارک کے لئے پختہ انتظامات کرے ، موجودہ وقت میں سائنس اور ٹکنالوجی اس قدر ترقی پر ہے کہ سمندر میں لائن بچھانے کا کام ہورہا ہے ، کیا یہ مشکل ہے کہ کوسی یا اس جیسی ندیوں کے پانی کو استعمال میں لانے کے لئے مناسب پلاننگ کی جائے اور سیلاب سے بچاؤ کے لئے پختہ انتظامات کئے جائیں ؟ ، ہر سال جتنا بہار سرکار کا ریلیف پر خرچ ہوتا ہے ، اس رقم سے سیلاب کی تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے انتظامات کئے جاسکتے ہیں ، بہار سرکار کو ترجیحی بنیادوں پر اس کے لئے پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ لوگوں کی جان ،مال وغیرہ کی حفاظت ہوسکے
موجودہ وقت میں سیلاب سے تباہی کی بڑی وجہ یہ ہوئی ہے کہ کوسی پل میں پانی کو روکنے کے لئے 56 پھاٹک بنائے گئے ہیں ، جب نیپال میں بارش یا برفباری بہت ہوتی ہے ، تو حکومت کے ذریعہ پانی کی نکاسی کے لئے پھاٹک کھولے جاتے ہیں ، پھاٹک کھولنے کے لئے یقینا کوئی ضابطہ و اصول بنایا گیا ہوگیا ، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ کہیں چوک ہوئی ہے ، کیونکہ خبر کے مطابق اس مرتبہ سبھی 56/ پھاٹک بیک وقت کھول دیئے گئے ، جس کی وجہ سے اتنا بھیانک سیلاب آگیا کہ ہر طرف تباہی مچادی ، موجودہ وقت میں سپول ، سہرسہ ، بھاگلپور ، دربھنگہ ، مدھوبنی ، سیتامڑھی اور مظفر پور اضلاع سیلاب کی لپیٹ میں ہیں ، بہت سے گاؤں میں سیلاب کا پانی گھس گیا ، گھر گر گئے ، جانور ،سامان وغیرہ سب سیلاب میں بہہ گئے ، لوگ روڈ پر یا کسی اونچی جگہ پر پلاسٹک میں پریشانی کی زندگی گذار رہے ہیں ،
سیلاب زدہ علاقوں کے لوگوں کے پاس نہ کھانے کے سامان ہیں ، نہ پہننے کے کپڑے ہیں ، نہ روشنی کے سامان ہیں ، نہ رہنے کے لئے کوئی سہولت ہے ،ایسے میں سب سے پہلے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر ریلیف اور راحت رسانی کا کام کرے ، بہت سے لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں ،ان کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچانے کا انتظام کیا جائے ، ان کے لئے روشنی ، پانی اور علاج و معالجہ کے لئے میڈیکل سینٹر قائم کئے جائیں ، ساتھ ہی ایسے موقع پر ان علاقوں کے لوگوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ، جو اس آفت سے محفوظ ہیں کہ وہ لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف اور راحت رسانی کا انتظام کریں ، ملی تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ جلد اس جانب توجہ دیں ، اہل خیر حضرات سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنے اپنے رشتہ اور تعلقات کے لوگوں کے حالات معلوم کریں ، کسی کو کسی چیز کی ضروت ہو تو مہیا کرایا جائے ، اس مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے ، اور آفات میں گھرے ہوئے لوگوں کو مصیبت سے نجات دے۔

(مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے