ارتداد کی آندھی میں حفاظت ایمان کی فکر!

تحریر: عبدالمنعم فاروقی
9849270160

یقینااللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ کا ایمان لانا جس قدر پسند دیدہ ہے اس کا چھوڑ دینا اتنا ہی زیادہ ناپسندیدہ ہے ،جب کوئی بندہ یا بندی اسلام قبول کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ ان کے سابقہ ساری غلطیوں کو معاف فرمادیتے ہیں چنانچہ ایمان لانے والا اس طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والا بچہ ہوتا ہے،برخلاف جب کوئی بدبخت بندہ یابندی دولت اسلام چھوڑ کر کفر وشرک کی طرف لوٹ جاتے ہیں تو ان سے اللہ تعالیٰ اس قدر ناراض ہوتے ہیں کہ ان سے نگاہ رحمت پھیرلیتے ہیں ، ایسا بندہ یا بندی اللہ تعالیٰ کی نظر میں مبغوض کہلاتے ہیں اور ان پر لعنت وپھٹکار ہوتی ہے ،اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کی جانب پلٹ جانے کو ارتداد کہتے ہیں اور دولت اسلام چھوڑ کر کفر کی وادیوں میں بھٹکنے والے بدبخت کو مرتد کہتے ہیں ،اسلام کی نظر میں مرتد اور زندیق مطلق کافر سے بھی بدتر ہیں ، مطلق کافر سے تو لین دین ،معاملات کرنا جائز ہے لیکن مرتد کافر اور زندیق کافر سے کسی بھی طرح کا لین دین اور معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ حق وصداقت اور حقیقت و سچائی کے راستے پر چلنے کے بعد اچانک اس سے رخ موڑ لینا اور اس سے علاحدگی اختیار کرنا انتہائی درجہ احمقانہ حرکت اور سنگین قسم کا جرم ہے ، ارتداد کی چاہے جو بھی وجو ہات ہو لیکن ہر وجہ نامعقول اور ناقابل قبول ہے ،مرتد اپنی اس حرکت کے ذریعہ جہاں ایک طرف حق وانصاف کی خلاف ورزی کرتا ہے ، حق پرستوں کی توہین کرتا ہے جو خود ایک طرح کا جرم ہے تو دوسری طرف راہ حق سے پھر کر دوسروں کے لئے گمراہی کا راستہ ہموار کرتا ہے یہ بھی بدترین جرم ہے تو تیسری طرف مرتد اپنے ارتداد کے ذریعہ مذہب اسلام کی توہین کرتا ہے یہ بھی نہایت اور سنگین جرم ہے ان وجوہات کی بنا پر اسلام میں ایسے شخص کو کڑی سزا سنائی گئی ہے اور مرتدین کے خلاف سخت اقدامات کا حکم دیا گیا ہے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی حرکت نہ کر سکے ، رسول اللہ ؐ کی وفات کے بعد بعض قبائل اسلام سے پھر کر مرتد ہوگئے تھے ، خلیفہ اول سید نا ابوبکر صدیق ؓ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ ؓ نے ان کے خلاف ایک فوج تیار کرکے مرتدین پر چڑھائی کی اور انہیں واصل جہنم کرکے بتا دیا کہ دین اسلام سے پھر نے اور ارتداد اختیار کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے ، آپ ؓ کے اس جرأت مندانہ اور بروقت اقدام سے اسلام کو ایک نئی قوت عطا ہوئی ، ارتداد کے ذریعہ دشمنان اسلام کے جو کچھ منصوبے تھے ان سب پر پانی پھر گیا ،وہ اپنی موت آپ مرگئے اور اسلام کے خلاف ساری سازشیں ناکام ہوگئیں ،چنانچہ مشہور محدث علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو بڑے نازک موقع پر دو شخصیات کے ذریعہ عزت عطا فرمائی ،ایک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے ذریعہ اس دن جب بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے اور دوسرے سیدنا امام احمد ابن حنبل ؒ کے ذریعہ اس دن جب کہ فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں وہ حق پر ڈٹ گئے تھے ، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے اس جرأت مندانہ ،تدبرانہ اور بروقت فیصلہ سے جہاں اسلام کے خلاف سازشیں رچنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی وہیں مرتدین کو ان کے انجام تک پہنچاکر یہ بتادیا گیا ارتداد ایک سنگین قسم کا ناقابل معافی جرم ہے ،یہ مذہب اسلام کی توہین ،اقرار کے بعد انکار ،وعدہ خلافی اور دوسروں کے لئے گمراہی کا راستہ ہے جس کے خلاف بروقت کاروائی کرنا ہی عدل وانصاف کا تقاضہ اور انسانیت سے سچی ہمدردی ہے ۔
ملک میں ۲۰۱۴ء کے بعد سے سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک کے طول وعرض سے مسلسل وقفہ وقفہ سے یہ اطلاعات موصول ہوتی جارہی ہیں کہ فلاں علاقہ سے ایک مسلم لڑکی نے مذہب اسلام کو چھوڑ کر اور اپنے گھروالوں کو سرے عام رسوا کرتے ہوئے کسی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرتے ہوئے ارتداد کو گلے لگالیا ہے، ، ۲۰۲۲ ء کے بعد سے اس طرح کی اطلاعات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ،آئے دن اس طرح کی خبریں سوشل میڈیا پر گشت کرتی جارہی ہیں اور اس کے بعد چاروں طرف سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے ،ہر شخص اپنے اپنے طور پر اس گھناؤ نے عمل کی مذمت کرتا ہوا نظر آتا ہے ،کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ ،بعض ماں باپ پر تنقید کرتے ہیں تو بعض مسلم معاشرہ کو مورد الزام ٹہراتے ہیں تو بعض اس کی مکمل ذمہ داری علمائے کرام کے کندھوں پر ڈال کر علماء پر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد تبصروں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہیں تھا ،پھر جیسے ہی سوشل میڈیا پر کسی کے ارتداد کی خبر آتی ہے یہ کاغذی شیر پھر سے غرانے لگتے ہیں اور خوب واویلا مچاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے طور کسی نہ کسی کے سر پر اس الزام کو تھوپ دیتا ہے اور بڑی آسانی سے خود کو اس سے علاحدہ کرلیتا ہے،مگر یہ سوچنے کی ہر گز زحمت گوارا نہیں کرتا کہ آخر اس کے اسباب وعلل کیا ہیں،کیا وجہ ہے کہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھا تے ہوئے ارتداد کو گلے لگارہے ہیں ، کیا وجہ ہے کہ ملت کی بیٹی غیر وں کے ساتھ بڑی بے غیرتی کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے ؟ ، سچ یہ ہے کہ ہمیں تنقید سے فرصت ملے تو حقیقت حال کی طرف قدم بڑھائیں گے ،ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو عموماً اور خصوصاً علماء ،قائدین ،مسلم تنظیمیں اور معاشرہ کے سنجیدہ حضرات کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے ،جو حضرات مسلم لڑکیوں کے ارتداد پر متفکر اور تشویش میں مبتلا ہیں اور اس کے اسباب وجوہات کو جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس کے تدارک کی فکر میں مصروف ہیں یقینا ان کی یہ کوششیں قابل ستائش اور قابل تقلید ہیں ۔
یہ بات حقیقت پر مبنی اور مشاہدات سے ثابت ہے کہ ملک کی ایک کٹر جنونی مذہبی تنظیم ہے جس کی سرپرستی ملک کی اقتدار پر قابض جماعت کر رہی ہے بلکہ ملک کے حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اقتدار پر قابض جماعت کی سرپرستی یہ کٹر مذہبی تنظیم کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اقتداد پر قابض جماعت کے قائدین کی نگرانی میں جنونی نوجوان مسلم لڑکیوں کو اپنی محبت میں پھنسا کر انہیں ارتداد کے گڑہے میں پہچارہے ہیں ،یہ کٹر قسم کے لوگ اپنے اس گھناؤنی حرکتوں کے ذریعہ آپس میں نفرت کا بیچ بو رہے ہیں اور محبت کی فضا کو مکدر کر رہے ہیں حالانکہ ملک کی صدیوں پرانی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے باشندگان ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکر بن کر رہے ہیں ،کبھی بھی ان لوگوں کے درمیان مذہب کی بنیات پر ایسے اختلاف رو نما نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان نفرت کا بازار گرم ہوا ہو ،وہ تو ایک دوسرے کا اس طرح احترام کرتے تھے جس طرح قریبی رشتہ دار ایک دوسرے کا احترام اور لحاظ رکھتے ہیں ،مگر اسے نفرت کے سوداگر کیسے پسند کرسکتے ہیں ،چنانچہ ان نفرت کے سوداگروں نے مختلف ترکیبوں کے ذریعہ باشندگان ہند کے درمیان سازش کے تحت مذہبی منافرت پھیلا نا شروع کیا ،اس کے لئے انہوں نے اپنے دشمن دماغوں سے کام لیتے ہوئے نت نئے حربے استعمال کئے ،کبھی مذہب پر تنقید کی تو کبھی مذہبی پیشوا کو حدف ملامت بنایا تو کبھی معمولی بات کو مذہب کا رنگ دے کر دنگے اور فسادات کروائے تو کبھی مذہبی محترم چیز کا سہارا لے کر نفرت کی آندھی چلائی جب ان چیزوں سے انہیں اپنے مقصد میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو پھر محبت کے نام پر مسلم لڑکیوں کا پیچھا کرنا شروع کیا اور اپنے فریبی محبت کے جال میں پھنسا کر انہیں ارتداد کے ذریعہ چوراہے پر لاکھڑا کیا ۔
ان گھناؤنی حرکتوں کے ذریعہ ان کا مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے ،ان کے سکون کو برباد کیا جائے اور ان پر ظلم وستم کرتے ہوئے انہیں کمزور کیا جائے تا کہ وہ اسی میں الجھ کر رہ جائیں جس کے بعد نہ تو وہ قیادت کے قابل رہیں اور نہ ہی اپنی مذہبی تعلیمات دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دی سکیں ،اس خطرناک کام کے لئے اس کٹر تنظیم نے ایسے نوجوانوں کی ٹیمیں تیار کی ہیں جو مستقل منظم انداز میں اسی کام میں لگے ہوئے ہیں ،اس تنظیم سے جڑے نوجوان باضابطہ تربیت لے کر اس کام کو انجام دے رہے ہیں اور خصوصا مسلم آبادی والے علاقوں میں گھوم پھر کر مسلم لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں ، کالجس ،شاپنگ مالس اور آفسس میں ڈیوٹی کرنے والی بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو اپنے فریبی محبت کے جال میں پھنسا کر انہیں مرتد ہونے پر مجبور کرکے پھر ان سے شادی کا ڈھونگ رچا کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرتے جارہے ہیں ،یہ درندہ صفت باضابطہ سوشل میڈیا پر بغیر کسی خوف کے بیانات جاری کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم کا اظہار ہی نہیں بلکہ باضابطہ اعلان کرتے جارہے ہیں ،افسوس تو اس بات پر ہے کہ ان کی اس غیر اخلاقی ،غیر انسانی ، غیر آئینی اور ذلیل حرکتوں پر آواز بلند کر نے کو تیار نہیں ہیں اور ان کے نفرت پر مبنی بیانات کو نقض امن اور دستور ہند کے خلاف بتا کر انہیں روکنے کے لئے آگے آنے کو کوئی تیا ر نہیں ہے سوائے چند جرأت مند لوگوں اور فعال جماعتوں کے ، جس کی وجہ سے دن بدن ان کی ہمت بڑھتی جارہی ہے اور وہ مزید منظم طریقے سے اس کام کو انجام دیتے جارہے ہیں ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے اطلاعات کے مطابق اب تک یہ درندہ صفت اور امن کے دشمنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مسلم لڑکیوں کو اپنا شکار بنا چکے ہیں ،انہیں ارتداد کے راستہ پر ڈال چکے ہیں اور اپنے فریبی محبت کے جال میں پھنساکر ان کی عصمتوں کو تارتار کر چکے ہیں۔
آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی خبریں مسلمانوں پر بجلی بن کر گر رہی ہیں اور غیور مسلمان غیرت میں ڈوب رہے ہیں اور اس طرح کی خبریں سن کر ان کے ا دل ٹکڑے ٹکڑے ہورہے ہیں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ مرتد ہونے کی خبریں معمولی نہیں بلکہ دل کو ہلادینے والی اور غیرت کو للکارنے والی ہیں ،امت مسلمہ کے لئے افسوس، شرمندگی اور رسوائی کی بات ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے سچا مذہب ہونے ،اس کی تعلیمات سراپا حق ہونے اور پوری انسانیت کے لئے اعلی ترین تعلیمات رکھنے کے باوجود مسلم لڑکیاں دھوکے بازوں کے دھوکے میں آکر، دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر ،معمولی اور وقتی خواہشات کی تکمیل کے لئے اور جھوٹی محبت میں گرفتار ہوکر ناسمجھی اور اندھے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارتداد کو گلے لگا رہی ہیں اور اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے خود کو غیر محفوظ وادی میں کھڑا کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کو رسوا کرکے اسلام جیسی عظیم دولت سے ہاتھ دھو کر کفر کی کاغذی ناؤ میں سوار ہوکر ہمیشہ کے لئے اپنے کو عذاب کا مستحق بنا رہی ہیں ۔
مسلم لڑکیوں کے ایمان سے ہاتھ دھونے اور ارتداد کی لپٹ میں آنے کی علماء نے اور معاشرہ پر دوربینی نظر رکھنے والوں نے بہت سی وجوہات بیان کی ہیں اور ان حضرات نے جو کچھ وجوہات بیان کی ہیں ان میں سے ایک (۱)‘‘مسلم بچوں میں بنیادی دینی تعلیم کا فقدان ’’ یقینا دینی تعلیم کا فقدان اور بنیادی صحیح عقائد کا علم نہ ہونا مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے ارتداد کا سبب ہے،حقیقت یہی ہے کہ جب مسلمان اپنے بچوں کو دینی بنیادی تعلیم سے آرستہ نہیں کریں گے اور شروع ہی سے ان کی دینی خطوط پر تربیت کی فکر نہیں کریں گے اور انہیں اسلام ماحول فراہم نہیں کریں تو اس کا لامحالہ نقصان یہی ہوگا کہ آگے چل کر وہ دشمنوں کی سازش کا شکار ہوں گے یا تو ارتداد کا شکار ہوں گے یا لوگوں کی باتوں میں آکر غلط عقائد ونظریات کو گلے لگائیں گے یا کم ازکم غیروں کی تہذیب کو پسند کرتے ہوئے اسے اپنائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا نام مسلمانوں کے ناموں پر ہوگا مگر ان کا عمل غیروں کے طریقوں پر ہوگا ،اس لئے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ایمان وعقائد کی اسی طرح فکر کریں جس طرح ان کے جسم اور جان کی فکر کرتے ہیں اور ان کے دینی تعلیم کی اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ فکر کریں جس طرح ان کے کھانے پینے ،کپڑے اور دیگر ضرورتوں کی فکر کرتے ہیں ، اس کے لئے انہیں مساجد سے ،مکاتب سے اور علماء کی دینی مجالس سے وابستہ کرنا ضروری ہے،ارتداد کی دوسری بنیادی وجہ (۲)‘‘ آخرت سے غفلت اور وہاں کی دائمی زندگی سے ناواقفیت ’’ قبول اسلام کے لئے بنیادی شرائت میں سے آخرت پر ایمان لانا ہے ،آخرت اور وہاں کی دائمی زندگی پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا،آخرت اور وہاں کی لا محدود زندگی کے تصور کے بغیر کو ئی شخص اپنی دنیوی زندگی کو سنوار نہیں سکتا،کیوں کہ ایک مسلمان کو بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور آخرت کی زندگی دائمی ہے اور دائمی زندگی اور وہاں کے لامحدود نعمتوں کو پانے کے لئے دنیوی زندگی کو پابند بناکر گزارنا ہوتا ہے اور اپنی دنیوی زندگی اور اس کے لمحات پابند بناکر وہی شخص زندگی گزارتا ہے جس کی نظر آخرت پر ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی کو آخرت کے لئے امتحان کی جگہ بنایا ہے ،آدمی اوقات امتحان اور اس کے ہر لمحہ کو مستقبل کے کامیاب بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے اور ان اوقات میں ذراسی غفلت وکوتا ہی نہیں کرتا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہی شخص امتحان میں کامیاب ہوتا ہے جو امتحان کو امتحان سمجھتا ہے اور جو امتحان میں لاپرواہی کا مطاہرہ کرتا ہے وہ زندگی بھر کف افسوس ملتا رہتا ہے،مسلمان کو بتایا گیا ہے کہ اس کے لئے دنیوی زندگی ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی پر آخرت کی لامحدود زندگی کے سکون وچین کا دارومدار ہے،اب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرے اور محدود زندگی میں وقتی سہولیات اور معمولی فوائد کے لئے لامحدود زندگی کی نعمتوں سے خود کو محروم نہ کرے ، یقینا جس کی نگاہ آخرت پر ہوتی ہے وہ کبھی بھی نافرمانی نہیں کرتا اور دنیوی زندگی کو وقتی خواہشات کے پیچھے لگا کر اپنی آخرت کی زندگی برباد نہیں کرتا ،مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت آخرت کو یاد رکھیں اور دنیوی زندگی کو آخرت کے کامیاب بنانے میں لگائیں ، ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آخرت کے متعلق بتائیں ،اس کی فکر دلاتے رہیں اور انہیں بتائیں کہ دنیا کے مقابلہ میں آخرت ایسی ہی ہے جیسے ایک پانی کے قطرہ کے مقابلہ میں سمندر کی حیثیت ہوتی ہے،جب ان کے دل ودماغ میں آخرت اور اس کی اہمیت پیوست ہوجاتی ہے تو پھر وہ جان دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے مگر دنیوی منفعت کی خاطر اخرت چھوڑنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوں گے ،ارتداد کی تیسری بنیادی وجہ(۳) ‘‘ مخلوط تعلیم اور آزاد انہ طرز زندگی’’ ، اس وقت مخلوط تعلیم نے اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے ،اسکولوں اور کالجوں میں لڑکیوں اور لڑکیوں کے اختلاط کے متیجہ میں طرح طرح کے اخلاقی جرائم جنم لے چکے ہیں ،بے پردگی و حیائی عروج پر ہے ،مخلوط تعلیم کے نتیجہ میں نو عمر لڑکے لڑکیاں بے حیائی اور گناہوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور بعض بد باطن اور ہوس پرست اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں ،اسلام دشمن طاقتیں ایسے ماحول کا فائدہ کر بھولی بھالی مسلم لڑکیوں سے جھوٹی ہمدردی بتاکر اور انہیں فریبی محبت کے جال میں پھنساکر ان کی زندگی سے کھلواڑ کر رہے ہیں اور آخر میں ارتداد کا شکار بنارہے ہیں اسی طرح آزادانہ طرز زندگی اور بڑی بڑی خواہشات نے بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کردی ہیں ،دکانوں میں نوکری اور بڑی چھوٹی کمپنیوں میں جاب جہاں مرد وزن ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا لگاتی ہیں اور بے جھجک ایک دوسرے سے میل جول رکھتی ہیں اور آگے چل کر ایک دوسرے کو اپنا رازدار بناتے ہیں پھر اس کا فائدہ اٹھا کر غیر مسلم ان سے شادی رچانے کی بات کرتے ہوئے ان کی عزت سے کھیلتے ہیں اور مرتد ہونے کی شرط لگاتے ہیں تب وہ اس ہوس پرست اور مردود کی چکر میں آجاتی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد پتہ چلتا ہے اس نے دھوکہ دے کر اس کی عزت کے ساتھ اس کے ایمان کا بھی سودا کر لیا ہے ، ماں باپ ابتداء میں ان چیزوں پر توجہ نہیں دیتے بلکہ توجہ دلانے والوں پر تنقیدیں کرتے ہیں لیکن جب ان کا گھر حادثہ کا شکار ہوتا ہے تو پھر خون کے آنسو روتے ہیں ،اپنے بچوں کو بے حیائی اور ارتداد سے بچانے کے لئے مخلوط مقامات پر انہیں تعلیم نہ دلوائیں اور آزادانہ مقامات پر انہیں جانے سے روکیں ۔
اس وقت خصوصا ملک کے مسلمان انتہائی نازک ترین حالات سے گزر رہے ہیں ،ان کے ساتھ مجرموں جیسا برتاؤ کیا جارہا ہے ،انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،ان کے بچوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کیا جارہا ہے ، تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ،ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرنے ساتھ ان کی جانوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے ،وقف ترمیمی بل کے ذریعہ وقف جائداد پر قبضہ کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور منظم کوششوں کے ذریعہ مسلم لڑکیوں کو ارتداد کا شکار بنا یا جارہا ہے ،ان سب حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور دستور کے دائرہ میں رہتے ہوئے منظم اور متحدہ طور پر اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کریں اور خصوصا اپنے اور اپنے بچوں کے دین وایمان کی فکر کریں اور یاد رکھیں ایک مسلمان کے لئے اس کی سب سے قیمتی چیز اس کا ایمان ہے ،وہ جان تو دے سکتا ہے مگر ایمان پر حرف آنے نہیں دے سکتا مگر یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ ہم اپنے بچوں کی دینی تعلیم کی فکر کریں ،انہیں ایمان کی اہمیت سے واقف کرائیں اور ان کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ ایمان ان کا قیمتی سرمایا ہے چنانچہ وہ جان تو دے سکتا ہے مگر ایمان سودا ہر گز نہیں کر سکتا ، اسلامی خطوط پر اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کریں کہ وہ ہر حال میں اپنی شناخت باقی رکھیں اور ایمانی لحاظ سے ایسا مضبوط بنائیں کہ وہ دشمنوں کے حملوں کو ناکام بنا سکیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے