کہ جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقّی میں ہے پیچھے
کہ جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا

اقراء کے معنی ہےپڑھنا سیکھنا مگر افسوس صد افسوس کے جس قوم کا آغاز اقراء سے ہوا تھا وہی قوم ہمارے ملک میں تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے نظر آتی ہیں۔ اگر اللہ کے نبی صلیٰ اللہ علیہ و سلم کےدور کا جائزہ لے جب قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت عرب کا معاشرہ جاہلیت میں ڈوبا ہوا تھا ۔شراب نوشی عام تھی بت پرستی عام تھی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیاجاتاتھا۔ایسی بہت سی برائیاں عام تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکےایک اللہ کی عبادت کرو شراب نوشی چھوڑ دو لڑکیوں کو زندہ دفن نہ کرو وقت کی اہم ضرورت تو یہ بھی تھی بلکہ سب سے پہلے یہ فرمایا{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ پڑھوں اپنے رب کے نام سےجس نے پیدا کیا۔کیوں کیا وجہ ہے غور کرنے کا مقام ہےہمارے لیے اس لیےفرمایا کے تمام برائیوں کی جڑ جہالت تھی علم کی کمی تھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی قوم کو علم کی روشنی ہی صحیح راستہ دکھا سکتی تھی۔

اس سے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس میں عصری اور دینی دونوں تعلیم شامل ہے۔ہمارے پیارے نبی صلّی علیہ وسلم کے نزدیک تعلیم کی کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کے غزوہِ بدر کے بعد جو لوگ قید ہوئے اور فدیہ نہیں دے سکتے تھے اُن کے ذمےآپ تعلیم کا کام کیا کے مدینے کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔

علم حاصل کرنےکا بہت ثواب ہے اللہ کے نبی کریم صلی علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابوذر !اگر ایک باب علم کا سیکھ لو ،تو اس وقت اس پر عمل ہو یا نہ ہو(جیسے پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کے مسائل سیکھنا )ہزار رکعت نوافل پڑھنے سے افضل ہے۔ (ابن ماجہ)

یہ بھی حدیث ہے کے علم حاصل کرو گود سے لے کر گور تک۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ زمر میں فرماتا ہیں کے

اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَآءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًآ يَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْـمَةَ رَبِّهٖ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّـذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۗ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُو الْاَلْبَابِ

(کیا کافر بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو، کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔ آیت ۹.

فرمایا کہ علم والے اور بے علم برارہوسکتے ہیں۔نہیں ہوسکتے نادنیا کی ہی مثال لے لیجئے آپ کے گھر کوئی جا ہل انسان تشریف لے آئے آپ اس کی بہت زیادہ خاطر نہیں کرے گے اس کے تضاد میں آپ کے گھر میں ایک ٹیچر تشریف لے آئے تو آپ کہے گے بیٹھے سر! سر کے لیے کرسی لاؤ ناشتہ لائو آپ کے برتائو میں تبدیلی آجائے گی۔

جب مسلما نوں نے{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ اس آیت کو پڑھا تو وہ علم حاصل کرنے میں جُٹ گئے اُن کی آنے والی نسلوں نے بلا تفریق عصری اور دینی ہر علم کو حاصل کیا اور کئی نئے علم بھی ایجاد کیے۔عہدِ نبوی کی خواتین بھی اس میں پیش پیش تھی حضرت عائشہ صدیقہ حضور کی وفات کے بعدعالمِ اسلام کے لیے علم و فضل خیر وہ برکت کا عظیم مرکز بنی رہی آپ سے 2210 حدیثیں مروی ہیں ۔ حضرت امّ رفیدہ طب میں مہارت رکھتی تھی۔اس زمانے میں جو آپریشن کے instrument ہوتےتھے وہ آپ کے پاس تھے مسجد نبوی کے پاس با قاعدہ آپ کا خیمہ بناہوا تھا۔

حضرت خنساء عرب کی عظیم مرثیہ گو خاتون تھی۔ یہ تو چند خواتین کے نام تھے ۔

عہدِ اسلامی میں بڑے بڑے سائنس داں بھی گزرے ہیں۔اسپین کے ابن رشد مشہور فلسفی سائنس داں۔ابوالقاسم الزہراوی 100سے زیادہ سرجیکل آ لات ایجاد کیے تھے ۔پہلے سرجن جنہوں نے اندرونی زخموں کو سینے کے لیے تا نت کا استعمال کیا۔

ابو بکر الرازی عہدِ عبّاسی کے مشہور طبیب ۔بچو کی بیماری کے father تسلیم کیے جاتے ہیں۔بہت بڑے ناموں میں یہ چند نام ہے۔ڈکشنری آف سائنس اینڈ سائنٹسٹ میں 108مسلم سائنسدانوں کے نام شامل ہیں ۔اورصرف سائنس میں ہی کام نہیں کیا ہر ذہنی شخص نے ہرمیدان میں کام کیا جیسےتاریخ، جغرافیہ،ادب ،موسیقی،اور سوشیلوجی اور ایسے بےشمار موضوعات ہیں۔ مگر ہم کہاں ہے آج؟ یہ ہمارا درخشاں ماضی ہیں۔ all India servey on higher education کی رپورٹ21۔2020کےمطابق مسلم لڑکوں کے مقابلے 3فیصد مسلم لڑکیاں ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہے ۔

قوم کے اے نوجواں کیوں بھاگتا ہے تو تعلیم کے زیور سے دور

علم و ہ عصاہے جو جہالت کے دریا کو فاڑ کر تُجھے راستہ دکھائےگا

تو سمجھ اس کی اہمیت اور طاقت کو

یہ بنائے گا تیری دنیا اور آخرت کو۔

all India servey on higher education کے مطابق۲۱ ۔۲۰۲۰میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے میں مسلم طلباء کی تعداد میں پچھلے سال سے کمی آئی ہیں ۔

مسلما نوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ غُربت کو بتایا جاتا ہے ۔مگر آپ نے سوچا ہے کبھی کے مسلم معاشرے میں شادیوں پر کتنا خرچ ہوتا ہے۔شادیوں پر بھی مسلمان بے انتہاء پیسہ خرچ کرتے ہیں۔2019rasheed kidwai کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک شادی پر او سط8 لا کھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔اندازے کے مطابق 15کروڑ مسلم آبادی میں 15لکھ شادیاں ہر سال ہوتی ہےاس طرح 15 لاکھ شادیوں میں 12ہزار کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

اگر یہی پیسہ امیر طبقہ تعلیم پر خرچ کرے تو کئی کالجس بن سکتے ہیں اور کئی بچّے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔اللہ کے نبی صلی علیہ وسلم نے فرمائے بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ میں ہوں۔فضول خرچی کی اجازت اسلام نے کبھی نہیں دی۔آج تعلیم وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے جس طرح روٹی کپڑا مکان ہماری بنیادی ضرورت ہے اسی طرح تعلیم بھی آج کے معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔تعلیم ہی انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔ تعلیم کا مقصد اللہ کو خوش کرنا خدمت خلق ہونا چاہئے مگر اس کے برعکس آج تعلیم کو نوکری کا حصول بنا لیا گیا ہے۔تعلیم کا مقصد نوکری کا حصول ہو تو معاشرے میں نوکر ہی پیدا ہوتے ہیں رہنما نہیں۔میں خاص طورسے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں سے کہنا چاہوں گی آپ کسی بھی فیلڈ میں جائے اپنے دماغ میں یہ بات ڈال دے کے میں کچھ بھی بنو چاہے ڈاکٹر چاہے ٹیچر میں اپنی قوم کی خدمت کرو گی اپنے دین کے لیے کچھ کرو گی۔کیونکہ ا عمال کا دارو مدار نیتوں ںپر ہے۔آپ بڑا سوچیں نیت اچھی رکھے پھر اللہ کی مدد بھی ویسے ہی آئےگی۔اگر آپ ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں آپ کا مقصد ہے ایک اچھا کلینک کھو لو گا خوب پیسے کماؤں گا عیش کی زندگی ہوگی۔تو یہ زندگی تو چار دن کی ہے۔لوگ آپ کو نہیں آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کو یاد رکھتے ہیں۔ بطور ٹیچر جو اپنے تعلیمی دنوں میں مشکل میں نے اٹھائی وہ اب دوسرے اسٹوڈنٹ کو نہیں اٹھانے دوگا/دوگی۔غریب بچّے جو فیس کی وجہ سے پڑھ نہیں پا رہے ہیں کم سے کم اُن کی فیس میں بھر دوگی۔یقین رکھے اگر آپ کی کی وجہ سے ایک بچہ بھی پڑھ لکھ کر اچھے عہدے پر فائز ہوتا ہے وہ آپ کا ہمیشہ ممنون ہوگا اور جو آپ نے اس کے لیے کیے وہ دوسروں کے لیے بھی کرےگا یہ سلسلہ ثواب جاریہ میں بدل سکتاہے۔تعلیم جس طرح لڑکوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح لڑکیوں کے لیے بھی ضروری ہیں ۔لڑکیاں نصف معاشرہ مستقبل میں انہی کو گودو میں ہماری نسل پروان چڑ ھے گی یہی تو اولاد کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔یہ تعلیم یافتہ ہوگی تو آ نے والی نسلوں کو پڑھا سکے گی۔بہت سے شہر وں میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہے مگر دیہاتوں میں یہ تعداد بہت کم ہے اس کی کئی وجوہات ہے جیسے سہولتوں کی کمی كالجس نہ ہونا وغیرہ ۔مگر پھر بھی میں یہ والدین سے یہ کہنا چاہو گی کے بالخصوص لڑکیوں کو پڑھائے اس لیے بھی کے اسے تجربہ حاصل ہوں اگرآپ اسے نوکری نہیں کروانا چاہتے تو کوئی بات نہیں مگر کم سے کم وہ جتنی تعلیم حاصل کر ے گی تو اس کے گھر میں آگے چل کر اُس کی اولاد میں وہ یہ تو بتا پا ئے گی کے اس فیلڈ میں اس طرح کی پڑھائی ہوتی ہے یہ کیجئے یہ کورس کیجئے بہت سے گھر میں کم تعلیم ہونے کی وجہ سے بچو کو صحیح فیصلہ لینے میں مدد کر نے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

تعلیم کی وجہ سے بچی کے پاس علم ہوتا وہ آگے چل کر زندگی میں کچھ مشکل ائے تو خود کما سکتی ہے ۔ایسے کئی واقعات سامنے آرہے ہے ایک واقعہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرا لڑکی کی شادی ہوچکی تھی شادی کے دو سال بعد شوہر کی دونوں کڈنی خراب ہوگئی۔لڑکی بہت کم تعلیم یافتہ تھی اب دوسروں کی مدد پر گھر کا نظام چلنے لگا۔بعد میں شوہر کا انتقال ہوگیا۔اگر ان حالات میں کوئی کسی کی مدد کرے بھی تو کتنے دِن کرےگا۔اس لیے لڑکیوں کو تعلیم سے نے روکے ۔اللہ امت کی بچیوں اور بچو کو خوب تعلیم حاصل کرنے کی توفیق دے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز کرے آمین ثم آمین۔

تحریر: صفیہ بیگم بنت سرفراز بیگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے