نفل نمازیں جنت میں رفاقت نبویؐ ذریعہ

اسلام میں ایمان کے بعد ایک مومن پر عائد ہونے والا سب سے پہلا فریضہ نماز ہی ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے اسی کے متعلق مومن سے سوال ہوگا ،قرآن کریم میں تقریبا ً سات سو مقامات پر نماز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں صریح طور پر ستر مقامات پر اس کا ذکر موجود ہے ،رسول اللہ ؐ نے بہت سی احادیث میں نماز کے فضائل ومناقب ،اس کی ادائیگی پر اجر وثواب اور بلاعذر اسے چھوڑ پر سخت ترین وعیدیں سنائی ہیں ، آپؐعبادات میں سب سے زیادہ نماز ہی کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ شوق کا عالم یہ تھا کہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد دوسری نماز کا شدت سے انتظار فرماتے تھے ،اماں جان عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے مگر جیسے ہی اذان کی آواز سنتے تو اجنبی بن جاتے اور مسجد کی طرف رخ کرتے تھے، آپ ؐ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرماکر اس سے اپنی غیر معمولی چاہت کا اظہار فرمایا ہے، آپ ؐ نے اپنے اصحاب ؓ کے دلوں میں اس کی ایسی عظمت واہمیت اور چاہت ومحبت پیدا فرمائی تھی کہ ان کے نزدیک دورکعت نماز دنیا وما فیہا سے بھی زیادہ قیمتی تھی ،وہ ترک نماز کو کفر سے بھی زیادہ بُرا سمجھتے تھے ،سفر وحضر اور جنگ وجدال میں نمازوں کا حد درجہ اہتمام کیا کرتے تھے ، تاریخ اسلام میں ان کے بے مثال واقعات آب زر سے لکھے گئے ہیں،ایک طرف دشمن کا لشکر جرار سامان حرب سے لیس ہو کر حملہ آور ہے تو دوسری طرف یہ مجاہدین عشق الٰہی میں ڈوب کر سر بسجود ہیں اور اپنے سجدوں سے میدان کارزار سجائے ہوئے ہیں،ان کے عاشقانہ سجدوں کو فرشتوں نے بھی یقینا رشک کی نگاہوں سے دیکھا ہوگا ،بعض صحابہؓ کا تو یہ عالم تھا کہ تیر کھائے جارہے ہیں، جسم سے خون بہا جارہا ہے اور پورا بدن لہولہان ہوچکا ہے مگر اللہ کے یہ بندے قیام وقعود اور رکوع وسجود چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور بزبان حال کہہ رہے ہیں یہ نماز عشق ہے کوئی دلگی نہیں ؂

ہوتی نہیں ہے یوں ہی ادا یہ نماز عشق
یاں شرط ہے کہ اپنے لہو سے وضو کرو

رسول اللہ ؐ نے جہاں پر فرض اور واجب نمازوں کا ان کے وقت پر اہتمام فرمایا کرتے تھے وہیں اپنی امت کو مقررہ اوقات میں ان کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتے تھے ،ساتھ ہی آپؐ خود بھی نوافل کا اہتمام فرماتے تھے اور ان کے فضائل بیان کرتے ہوئے اپے صحابہؓ کو بھی نوافل کے پڑھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں اہل علم فرماتے ہیں کہ فرض نماز یں جہاں نمازی کو متقی بنادیتی ہیں تو وہیں نفل نمازیں اسے مقربین کی صف میں کھڑا کر دیتی ہیں کیونکہ سجدوں کی کثرت بندہ کو قرب خداوندی اور اس کی نزدیکی عطا کرتی ہیں اور مستقل نمازیں ادا کرنے والا اور سجدوں سے مصلوں کو آباد رکھنے ولا بہت جلد قرب خداوندی کو پالیتا ہے چنانچہ رسول اللہ ؐ فرائض کے علاوہ دن ورات میں نوافل کا خوب اہتمام فرمایا کرتے تھے بلکہ آپ ؐ کی راتوں میں پڑھی جانے والی نفل نمازوں کا قیام وسجود بساوقات پوری پوری رات پر مشتمل ہوا کرتا تھا ،جس کی وجہ سے پائے اقدس پر ورم آجاتا تھا ،اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رات کی نماز میں آپ ؐ اس قدر طویل سجدے کیا کرتے تھے کہ مجھے ڈر ہوتا تھا کہ کہیں آپ ؐ وصالِ بحق تو نہیں کر گئے ہیں ،پھر ہاتھ لگانے پر قدم مبارک کی حرکت سے آپ ؐ کے حیات ہونے کا علم ہوتا تھا جس کی وجہ سے جان میں جان آجاتی تھی ،نفل نمازوں کی کثرت سے بندہ مقربین کے درجہ کو حاصل کر لیتا ہے ،جنت کے راستہ کو پالیتا ہے اور جنت میں اسے معیت نبوی حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ صحابی سیدنا ربیعہ بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ؐ کی خدمت میں رات گزارا کرتا تھا ،آپ ؐ کے لئے وضو کا پانی اور دیگر ضرورریات ( مسواک وغیرہ) کا خیال رکھتا تھا ،( ایک رات خوش ہو کر) آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا: ( ابن کعب ! دین ودنیا کی کچھ بھلائی چاہتے ہو تو) مانگ لو( مجھ سے دعا کرواؤ ) ،میں نے کہا : ( کچھ بھی نہیں یا رسول اللہ ؐ ،بس ) جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں ،آپ ؐ نے فرمایا: اس کے علاوہ کوئی اور چیز؟ ،میں نے کہا : بس یہی چاہئے! پھر آپ ؐ نے فرمایا: ‘‘فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود’’ بس اپنی ذات کے لئے سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو(نفل نمازوں کا خوب اہتمام کرو ،اس کے ذریعہ ضرو تمہیں جنت میں میری رفاقت نصیب ہوگی) ( مسلم:۱۰۹۴)،اگر چہ نفل نمازوں کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہے ، ممنوع ومکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت اسے پڑھاجاسکتا ہے لیکن رسول اللہ ؐ دن ورات کے مخصوص اوقات میں چند مخصوص نفل نمازوں کا اہتمام کرتے تھے اور ان کی بڑی فضیلتیں بھی بیان فرما یا کر تے تھے تاکہ لوگ اس کا اہتمام کر سکیں ، کتب فقہ میں ان نمازوں کے نام بھی مقرر ہیں، اگر کوئی ان کا اہتما م کرلے تو یہ اس کے لئے بڑے نصیب کی بات ہوگی ، سنت کے اہتمام کی وجہ سے اس پر انوار الٰہی کا نزول ہوگا ، اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا اور ان کے اہتمام سے کیا بعید کے جنت میں رفاقت نبوی ؐ حاصل ہوجائے۔
اصحاب رسول ؐ ،تابعین ؒ اور تبع تابعینؒ نفل نمازوں کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے ،اسی طرح ہر زمانے میں اولیا ئے کاملین ،علمائے ربانیین اور صلحا ئے امت بھی ان نمازوں کا خوب اہتمام کرتے تھے ،مشائخ فرماتے ہیں کہ بندہ اگر جماعت اولیاء میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ نوافل کو پابندی سے ادا کرنے والا بن جائے کیونکہ سچ یہ ہے کہ اس کے بغیر کوئی بھی ولایت کے مرتبہ تک پہنچ نہیں سکتا ،بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو سالہا سال سے روزانہ ان نمازوں کا اہتمام کرتے آرہے ہیں ، بہت سے لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق وقت نکال کر ان نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ،بعض لوگ جمعرات ،جمعہ اور پیر یہ تین دنوں میں ان نوافل کو بڑے اہتمام سے پڑھتے ہیں ،یہاں پر ان نفل نمازوں کا ذکر کیا جارہا ہے جس کا اہتمام خود رسول اللہ ؐ دن ورات کے مخصوص حصے میں فرمایا کرتے تھے اور آپ ؐ نے ان کے فضائل بیان فرمائیں ہیں تا کہ امت پر اس پر عمل کرکے بے شمار اجر وثواب حاصل کر سکیں اور جنت الفردوس میں انہیں اپنے نبی ؐکی معیت نصیب ہو سکے ۔

(۱)نماز تہجد:نماز تہجد نفل نمازوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت کی حامل ہے ،صحابی رسول سیدنا ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے ( ترمذی: ۱؍۹۹)،سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے،اس پر ایک دیہاتی کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے کہ، اے اللہ کے رسول ؐ ! یہ بالا خانے کن لوگوں کے لئے ہوں گے ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا : اس کے لئے جو اچھا کلام کرے ،(مسکینوں کو ) کھانا کھلائے، ہمیشہ روزے رکھے اور رات کو نماز ( تہجد) پڑھے جب دوسرے لوگ سو رہے ہوں ( ترمذی: ۲؍۱۹) ،نماز تہجد کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے مگر دو تہائی رات کے بعد پڑھنا افضل ہے، احادیث میں نماز تہجد کی چار،چھ،آٹھ اور دس رکعت تک بھی تعداد منقول ہے ،مگر اکثر رویات میں ہے کہ آپ ؐ کا اکثر معمول آٹھ رکعت پڑھنے کا تھا( ابوداؤد: ۱؍۲۰۰،ابن خزیمہ :۵۷۷۱)۔
(۲)نماز اشراق: سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا:جس نے فجر کی نماز باجماعت سے پڑھی ،پھر وہیں اللہ کا ذکر کرنے بیٹھ گیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا،پھر اس نے دورکعتیں پڑھیں تو اس کے لئے ایک مکمل حج اور عمرہ کا ثواب ہے ،آپ ؐ نے یہ مکمل کا لفظ تین بار ارشاد فرمایا( ترمذی: ۱؍۱۳۰)،سیدنا حسن بن علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے فجر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنے لگا یہاں تک کہ سورج نکل آیا ،پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ آگ کو حرام کر دیں گے کہ اسے کھائے(شعب الایمان للبیہقی:۳؍۸۵) ، نماز اشراق کی رکعتیں حسب سہولت دو یا چار پڑھ سکتے ہیں ، سورج نکل کر مکمل روشن ہو نے کے بعد اسے پڑھا جاتا ہے ( سورج نکلنے کے تقریبا ً پندرہ منٹ بعد) ۔
(۳)نماز چاشت: سیدنا ابوالدرداؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے چاشت کی دو رکعت پڑھی تو اس کا نام غافلین میں نہیں لکھا جائے گا،جس نے چار رکعت پڑھی تو اس کا نام عابدین میں لکھا جائے گا،جس نے چھ رکعت پڑھی تو اس دن اس کی کفایت کی جائے گی ،جس نے آٹھ رکعت پڑھی تو اس کا نام اطاعت شعاروں میں لکھا جائے گااور جس نے بارہ رکعت پڑھی تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں گھر تعمیر کریں گے (مجمع الزوائد:۲؍۴۹۴)حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہوتا ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے ،ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے،ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا ایک صدقہ ہے ،ہر بار اللہ اکبر کہنا ایک صدقہ ہے ،اچھی بات کا حکم کرنا ایک صدقہ ہے ،ہر بُری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جنہیں انسان پڑھ لیتا ہے (مسلم: ۱؍۲۵۰) ، چاشت کی کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں ، مسلم شریف میں ہے کہ آپ ؐ چاشت کی عموماً چار رکعتیں پڑھتے تھے اور کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے جو اللہ کو منظور ہوتا تھا، دن کا تہائی حصہ گزرنے کے بعد چاشت کا وقت شروع ہوتا ہے اور زوال تک رہتا ہے ۔
(۴)نماز اوابین: سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی اور ان کے درمیان کوئی بُری بات نہیں کی تو اسے بارہ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا( ترمذی: ۱؍۹۸) ،سیدنا عمار بن یاسر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے حبیب ؐ کو دیکھا کہ آپ ؐ مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھی تو اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ( الترغیب والترہیب للمنذری : ۱؍۲۲۷)،سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ ‘‘ صلوۃ الاوابین ’’ ہے( شرح السنہ: ۲؍ ۴۳۹) ۔
(۵)صلوٰۃ التسبیح : رسول اللہ ؐ نے اپنے چچا سیدنا عباس ؓکو یہ نماز خاص اہتمام سے سکھائی تھی اور فرمایا تھا کہ اس کے پڑھنے سے تمہارے چھوٹے بڑے سب گناہ معاف ہوجائیں گے،اگر ہوسکے تو ہر روز پڑھ لیا کرو اور ہر روز نہ پڑھ سکو تو ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھ لیا کرو، ہر ہفتہ نہ پڑھ سکو تو مہینہ میں ایک بار پڑھ لیا کرو، ہر مہینہ نہ پڑھ سکو تو سال میں ایک بار پڑھ لیا کرو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو ساری عمر میں ایک دفعہ پڑھ لینا۔ (بخاری) صلوٰۃ التسبیح کی چار رکعتیں ہیں ،اس نماز کے پڑھنے کا طریقہ اس طرح ہے کہ چار رکعت نفل کی نیت باندھ کر ثناء پڑھے، پھر سورۂ فاتحہ و ضم سورہ پڑھ کر ۱۵؍مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ پڑھے، پھر رکوع میں جائے اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِےْم کے بعد ۱۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر رکوع سے کھڑے ہوکر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہْ کے بعد ۱۰؍مرتبہ مذکورہ کلمہ پڑھے اور پھر دونوں سجدوں میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰکے بعد ۱۰۔۱۰۔ مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر ۱۰؍ مرتبہ مذکورہ کلمہ پڑھے، اور دوسرے سجدہ سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کراٹھ کر بیٹھ جائے اور۱۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھے، پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے، دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھے اورجب دوسری رکعت میں التحیات کے لئے بیٹھے تو ۱۰؍ مرتبہ یہ کلمہ پڑھے ، اس طرح چار رکعتیں پوری پڑھے۔ (المستدرک للحاکم: ۱؍۴۶۴)ہر رکعت میں ۷۵؍مرتبہ اور پوری نماز میں ۳۰۰؍مرتبہ یہ کلمہ پڑھنا چاہئے اور اگر بھولے سے کسی مقام پر چھوٹ جائے تو دوسرے مقام میں ادا کرلے۔ (مسائل نماز)نوٹ:دونوں قعدوں میں پہلے التحیات پڑھے پھر یہ کلمہ پڑھے ۔ (مسائل اعتکاف)۔

تحریر: (مفتی) عبدالمنعم فاروقی
9849270160

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے