آج جو مسلم معاشرہ ہے، اس میں ایک سنگین اور کڑوا سچ چھپتا جا رہا ہے۔ ایک سچ جو دل میں گہرے زخم کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ وہ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اب محض کمانا، بچیوں کی شادیوں پر لٹانا اور دنیا کے سامنے اپنی دولت کا تاثر دینا رہ گیا ہے۔ یہ حقیقت کسی دھندلی عکاسی کی طرح ہمارے سامنے آتی ہے، اور یہ حقیقت ہمیں اندر تک ہلا دیتی ہے۔ ان شادیوں میں جو فضول خرچی کی جا رہی ہے، وہ اس امت کے مستقبل کے لیے ایک بدتر قید بن چکی ہے۔ ہماری زندگیوں کی اصل ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی دولت کو محض ایک دن کے لیے پھونک دیں تاکہ ایک نیا لباس، ایک نیا کمرہ، ایک نیا ہال، ایک نیا کھانا ہو؟ اور وہ سب صرف دوسروں کے سامنے دکھانے کے لیے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی کے مواقع خوشی کے ہیں، مگر جو کچھ ہم نے ان مواقع پر خرچ کیا ہے، کیا وہ خوشی کا سبب بن رہا ہے یا اس کے نتیجے میں ہم نے اپنی زندگیوں کو غیر ضروری بوجھ کے نیچے دبا دیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیں خود سے کرنے چاہئیں۔ فضول خرچی کی یہ ساری سرکشی کیوں ہو رہی ہے؟ ہم نے اپنی شادیوں کو فخر، نمائش اور دکھاوے کا معاملہ بنا دیا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں دولت کا مقصد بس یہ رہ گیا ہے کہ ہم کس قدر بڑی اور دھوم دھام سے شادی کر سکتے ہیں۔ ان شادیوں میں وہ سب کچھ سجا ہوتا ہے جو کسی کی ضروریات سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ دراصل یہ ایک ایسی بے وقوفی ہے جس نے ہمارے معاشرے کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔ وہ پیسہ جو ہم اپنی شادیوں پر ضائع کرتے ہیں، وہ تعلیم، صحت، غربت اور بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ مگر افسوس کہ ہم نے اس دولت کو دکھاوے کی نذر کر دیا ہے۔ ہم شادیوں میں بے شمار پیسہ خرچ کرتے ہیں، مگر اس کا کیا فائدہ؟ شادی کی اس رات کے بعد، جب سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، تب صرف یہی سوال رہ جاتا ہے کہ کیا ہم نے اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے اس پیسے کو صحیح طریقے سے استعمال کیا؟ اگر یہ پیسہ تعلیم پر لگایا جاتا، تو آج ہمارے بچے عالم اور محنتی ہوتے۔ اگر یہ پیسہ کاروبار میں لگایا جاتا، تو ہمیں خودمختار اور معاشی طور پر مضبوط معاشرہ ملتا۔ لیکن ہم نے اپنی ترجیحات کو یکسر بدل دیا۔ جب تک ہم اس حقیقت کا سامنا نہیں کرتے، ہم اس سراب میں غرق رہیں گے۔ یہ صرف عوام کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ علمائے کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان فضول خرچیوں کی کھل کر مذمت کریں۔ جب ہم اپنے معاشرتی رواج کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اسلام نے سادگی، اعتدال اور خوشی کے حقیقی معنی ہمیں دیے ہیں۔ بعض علمائے کرام کو اس بات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرناچاہیے کہ ان کی خاموشی ہمارے معاشرے میں خرابی پیدا کر رہی ہے۔ وہ اس فضول خرچی کے خلاف آواز بلند کریں، لوگوں کو بتائیں کہ دکھاوے کی شادی نہ صرف فرد کی، بلکہ پورے معاشرے کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادیوں میں فضول خرچی کرنا کسی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری نسلوں کے لیے ایک سنگین جرم ہے، جو ہمارے ضمیر کو زندہ رکھتے ہوئے ہمیں گھنٹوں تک تنگ کرتا ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم اس خرچ کو اپنی نسلوں کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے میں لگانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم چاہیں گے کہ ہماری نسلیں بہتر تعلیم حاصل کریں، اپنی تقدیر خود لکھیں اور معاشی طور پر مضبوط ہوں؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں کامیاب ہو، تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوںگی۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں شادیوں کو سادگی سے گزارنے، فضول خرچی سے بچنے اور اپنی اصل ترجیحات کی طرف رخ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے یہ وقت ہے کہ ہم اس بے ہودہ نمائش کی بجائے حقیقت میں اپنی قوم کو ایک نئی روشنی دیں۔ یاد رکھیں! شادیوں میں فضول خرچی کرنا صرف ایک لمحے کا فریب ہے، جو ہماری نسلوں کے لیے ایک ابدی خسارے کا سبب بن رہا ہے۔ اسلام ہمیں سادگی، وقار اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی دعوت دیتا ہے، ہمیں ان اصولوں کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ہمارے لیے سچ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنے وسائل کو عقلمندی سے استعمال کرنا ہوگا، نہ کہ انہیں ضائع کرنا ہوگا۔ آئیے! ہم سب اس پختہ عہد کے ساتھ اٹھیں کہ ہم اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے فضول خرچیوں کو چھوڑ کر اپنے وسائل کا استعمال تعلیم، فلاحی کاموں اور معاشی ترقی کے لیے کریں گے۔
تحریر: آصف خان
دھامن گاؤں بڑے
ضلع: بلڈھانہ 9405932295