توحید، رسالت اور آخرت کی تعلیم وتذکرہ سے لبریز: "سورۃ انعام” مکی سورتوں میں شامل ہے اس میں بیس رکوع اور ۱۶۵ آیتیں ، تین ہزار ایک سو کلمہ ، اور بارہ ہزار ۹۳۵ حروف ہیں (کنزالایمان) ۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ پوری سورہ مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی۔ حضرت معاذؓ بن جبل کی چچازاد بہن اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ جب یہ سورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہورہی تھی اُس وقت آپ اونٹنی پر سوار تھے ، میں اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھی اور بوجھ کے مارے اونٹنی کا یہ حال ہورہا تھا کہ ، معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی ، روایت میں اس کی بھی تصریح ہے کہ جس رات یہ (سورۃ) نازل ہوئی اس رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قلمبند کرادیا۔ سورۃ انعام کا زمانہ نزول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؛ نبی کی حیثیت سے مبعوث فرمائے جانے کے ساتھ ہی دعوت حق کو پیش فرماتے ہوئے مکہ میں ۱۲ سال گزار چکے ، حالات کچھ اس طرح کے تھے کہ قریش کی مزاحمت اور ستم گری و جفا کاری انتہا کو پہنچ چکی تھی اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق کو قبول کرچکے ، ان اہل ایمان کے ساتھ بھی کفار قریش کا رویہ ظالمانہ ہوچکا اور ان اہل ایمان کی ایک بڑی تعداد ظلم و ستم سے عاجز آکر اپنا ملک چھوڑ کر حبش میں مقیم ہوگئی تھی۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کیلئے آپ کے چچا ابو طالب دنیا میں نہ رہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی حال ہی میں انتقال ہوچکا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بظاہر شدید مزاحمتوں کے مقابلہ میں تبلیغ رسالت کا فرض انجام دے رہے تھے۔ غرض کہ مسلمانوں کے ساتھ کفار کی جانب سے جسمانی اذیتیں اور معاشی و معاشرتی بائیکاٹ ہورہا تھا۔ دعوت حق کیلئے خوشی کا پہلو یہ تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے اثر سے مکہ میں اور گرد و نواح میں قبائل کے اندر سے صالح افراد پے در پے اسلام کی آغوش میں آتے جارہے تھے۔ ایک اور اُمید کی کرن یہ نظر آرہی تھی کہ یثرب کے دو مشہور قبائل ’’اوس‘‘ اور ’’خزرج‘‘ کے بااثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم و کے دست حق پرست پر بیعت کرچکے ، اس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام پھیلنا شروع ہوگیا۔ لیکن قوم بحیثیت مجموعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کررہی تھی۔ ان نادانوں اور غفلت میں پڑے ہوئے ظالموں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ آج جس اسلامی دعوت اور عقیدہ توحید کی مخالفت کررہے ہیں چند سال کے اندر سارے عرب پر غالب آنے والی ہے۔ یہ وہ حالات تھے جن میں سورۃ ’’الانعام‘‘ کا نزول ہوتا ہے۔
مولانا مودودی نوراللہ مرقدہ نے اس سلسلہ میں سات بڑے بڑے عنوانات دے کر یوں رقمطراز ہوئے۔
(۱) شرک کا ابطال اور عقیدہ توحید کی طرف دعوت۔
(۲) عقیدہ آخرت کی تبلیغ اور اس غلط خیال کی تردید کہ زندگی جو کچھ ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔
(۳) جاہلیت کے ان توہمات کی تردید جن میں لوگ مبتلا تھے۔
(۴) ان بڑے بڑے اُصول اخلاق کی تلقین جس پراسلام سوسائٹی کی تعمیر چاہتاتھا۔
(۵) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کے خلاف لوگوں کے اعتراضات کا جواب۔
(۶) طویل جدوجہد کے باوجود ’’دعوت‘‘ کے نتیجہ خیز نہ ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمانوں کے اندر اضطراب اور دل شکستگی کی جو کیفیت پیدا ہورہی تھی اس پر تسلی۔
(۷) منکرین اور مخالفین کو ان کی غفلت و سرشاری اور نادانستہ خودکشی پر نصیحت ، تنبیہ اور تہدید لیکن خطبہ کا انداز یہ نہیں ہے کہ ایک ایک عنوان پر الگ الگ یکجا گفتگو کی گئی ہو۔ بلکہ خطبہ ایک دریا کی سی روانی کے ساتھ چلتا جاتا ہے اور اس کے دوران میں یہ عنوانات مختلف طریقوں سے بار بار چھڑتے ہیں اور ہر بار ایک نئے انداز سے ان پر گفتگو کی جاتی ہے۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ ۵۲۰ تا ۵۲۱)
مولانا پیر محمدکرم شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ نے بھی مذکورہ سورۃ ’’الانعام‘‘ کو سات حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اس کا تعارف اس طرح کیا ہے۔ (جسے یہاں پر نقل کیاجاتا ہے)۔
(۱) ’’مکہ کی تقریباً تمام تر آبادی مشرک اور بت پرست تھی۔ پتھر کے بتوں اور مٹی کی مورتیوں کے متعلق ان کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ بھی الٰہ (خدا) ہیں۔ اس بے سروپا بات کے اظہار میں انھیں ذرا تامل نہ تھا۔ بلکہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انھیں بتایا کہ یہ بے جان اور بے زبان مجسمے خدا نہیں۔ خدا تو وہ ذات والاصفات ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے علم سے کائنات کا کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں۔ تاریک غار میں اندھیری رات میں ننھی سی چیونٹی کے رینگنے کی آواز کو بھی سنتا ہے تو یہ سن کر وہ (مشرک)حیران و ششدر ہوگئے اور مارے حیرت کہ کہہ اُٹھے ’’یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ جب وہ ان کو خدا مانتے تو ان کی عبادت بھی کیا کرتے تھے ، خدا سمجھتے ہوئے اپنی مشکلات اور تکالیف میں انھیں کی طرف رجوع بھی کیا کرتے ، اپنی ضروریات اور حاجات کے لئے انھیں کے سامنے دست سوال دراز کیا کرتے۔ اس سورۃ پاک میں ان کے اس مشرکانہ عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔ انھیں یہ بتایا گیا کہ پتھر کے یہ بت جو شکل و صورت میں کسی سنگ تراش کے مرہون منت ہیں وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں ؟
خدا تو وہ ذات ہے جس نے (کن) ’’ہوجا‘‘ فرمایا تو یہ عالم رنگ و بو اپنی تمام دلآویزیوں اور عظمتوں کے ساتھ موجود ہوگیا۔ جس کا علم اتنا ہمہ گیر ہے کہ ظاہر و باطن سب اس پر عیاں ہے۔ جس کے اختیارات غیر محدود ہیں وہ جو چاہے جتنا چاہے جسے چاہے عطا فرمادے کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اور جو چاہے جس وقت چاہے جس سے چاہے چھین لے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ (ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں)۔
(۲) قرآن حکیم (توحید باری تعالیٰ میں یہ دلائل دیتا ہے) یہ سورج ، یہ چاند کس کی کبریائی کے شاہکار ہیں۔ زمین کی سطح پر لہلہاتے ہوئے شاداب کھیت ، رنگ برنگ پھول ، قسم قسم کے پھل کس کی قدرت کی شہادت دے رہے ہیں۔ یہ گھنگھور گھٹائیں اور ان سے ٹپکنے والے حیات بخش قطرے کس کی رحمت کے مظہر ہیں ؟ صرف اللہ واحد لاشریک کے۔ کون انکار کرسکتا ہے ان حقائق کا۔ یہی وہ نور تاباں تھا جس کی تجلیوں کے سامنے کفر و شرک کی ظلمتوں کو کہیں پناہ نہ ملی۔
(۳) اسلام ، قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی مخالفت کسی سنجیدگی اور متانت پر مبنی نہ تھی اور نہ قرآنی دلائل کے جواب میں ان کے پاس کوئی ایسی قوی دلیل تھی جس سے وہ اپنے باطل عقائد کی حفاظت کرسکتے۔ ان کا سارا سرمایہ ، مذاق ، تمسخر اور طرح طرح کی حجت بازیاں تھیں (مثلاً)فرشتہ جو وحی لاتا ہے وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا۔ قرآن ایک مرتب کتاب کی صورت میں کیوں نازل نہیں ہوا۔ لو اور سنو موت کے بعد نئی زندگی کا پرچار ہورہا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی ماننے کی بات ہے۔ بس اس قسم کے ان (کفار) کے اعتراضات تھے جنھیں وہ بڑی شد و مد سے پیش کیا کرتے۔ اس سورۃ میں ان کا رد کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ چشم زدن میں سب کو اسلام لانے پر مجبور کردے لیکن یہ اس کی حکمت کے خلاف ہے ، ورنہ ابراہیمؑ اور نمرود کی پہچان کیسے حسین رضی اللہ عنہ و یزید کا امتیاز کیونکر ہو؟
(۵) سورۃ کے آخری حصہ میں مشرکین کی ان جاہلانہ رسموں کی تردید کی گئی ہے جو اُنھوں نے جانوروں کی حلت و حرمت وغیرہ کے متعلق مقرر کر رکھی تھی اور واضح طور پر بتادیا کہ یہ تمہاری من گھڑت باتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نہیں ہے۔
(۶) رکوع ۱۵ میں مکارم اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اور اخلاق رذیلہ سے حکیمانہ انداز میں منع کیا گیا ہے۔
(۷) اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخری رکوع میں اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ ’’قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ …تا… وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘کا اعلان کریں ان دونوں آیتوں کا ترجمہ آپ بار بار پڑھیں اور غور کریں۔ آپ کا دل پکار اُٹھے گا کہ بخدا یہی حاصل اسلام ہے ، یہی روح توحید ہے۔ (ضیاء القرآن جلد اول ۵۲۹ تا ۵۳۱)
قارئین کرام !
اگر ہم اس سورۃ انعام کا مختصر طور پر تجزیہ کریں، اور مفسرین کرام کی تحریروں کو بغور پڑھیں تو جو بات ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سورت میں توحید اور معاد کے واضح دلائل کی طرف نشاندہی کی ہے اور بتایا گیا کہ قرآن حکیم کو جھٹلانا ایک امر حق کو جھٹلانا ہے لہٰذا اس کا خمیازہ منکرین کو بھگتنا پڑے گا۔ قرآن، بد لوگوں کے نتائج کی جو خبر دے رہا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ پچھلی اقوام رسولوں کو جھٹلا کر کس طرح عذاب سے دوچار ہوئیں اس کی طرف اشارہ فرمایا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتاکر تسلی دی گئی کہ یہ لوگ بڑے سے بڑے معجزہ دیکھ کر بھی حق کے قائل ہونے والے نہیں اور آپ کو یہ بھی بتادیا گیا کہ آپ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں ان کا بھی مذاق اُڑایا جاچکا ، آخرکار حق کا مذاق اڑانے والوں کو اللہ کا عذاب آگھیرا۔ اور بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب اللہ کی ملکیت ہے۔ یہ رحمت الٰہی ہے جس کی بناء پر جزا و سزا کا دن آئے گا۔ جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کا رد کرتے ہوئے یہ بات بھی بتائی گئی کہ خیر و شر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ حکمت والا و باخبر ہے۔
ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار حیدرآباد
فون نمبر : 9849099228