موجودہ وقت میں مدارس کا تحفظ سب سے اہم مسئلہ ، وقت سے پہلے اکابر علماء و دانشوران کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت

پوری دنیا میں دین و شریعت کی ترویج و اشاعت میں مدارس کا اہم کردار رہا ہے اور آج بھی ہے ، بر صغیر میں تو مدارس کی ضرورت اور اہمیت سب سے زیادہ ہے ، بر صغیر میں مدارس و مکاتب نے ہمیشہ اس ضرورت کی تکمیل کی ہے ، اس لئے مدارس ہر زمانہ میں مخالفین کے نشانے پر رہے ہیں ، چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دین و شریعت کی پختہ تعلیم اور امت مسلمہ کو متحد رکھنے کے لئے مدارس و مکاتب بڑا پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں ، اگر مسلمانوں کو مدارس و مکاتب اور علماء سے دور کردیا جائے ، تو پھر سب کچھ آسان ہو جائے گا ، حالانکہ ہر زمانہ میں مدارس و مکاتب میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد کم رہی ، آج بھی ہمارے ملک ہندوستان میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 4/ فیصد مسلمانوں کے بچے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ، دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلہ میں مدارس و مکاتب کی تعداد بھی نہایت ہی کم ہے ، پھر بھی یہ مدارس و مکاتب کچھ لوگوں کی نظر میں کھٹکتے رہتے ہیں ، یہانتک کہ موجودہ وقت میں سرکار اور سرکاری ایجنسیاں بھی اس کو نشانہ بنانے لگی ہیں ، جبکہ یہ ملک کے آئین کے مطابق چل رہے ہیں
گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے بعض ریاستوں میں مدارس و مکاتب کو بند کرنے کی سازش کی گئی ، مگر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے آلہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مدارس کو ملک کے آئین کے مطابق قرار دیا ، ملک میں ریاست کے ذریعہ قائم کردہ مدرسہ بورڈ کے ایکٹ کو بھی صحیح اور درست قرار دیا ، البتہ اس کے تعلیم کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ریاستی حکومت کو دیا ہے ، جس سے ریاستی حکومتوں کو مدارس کے نظام و نصاب میں مداخلت کے لئے راستہ کھل سکتا ہے ، اس پر وقت سے پہلے غور و فکر کی ضرورت ہے
میرے مطالعہ کے مطابق موجودہ وقت میں مدارس پر مخالفین اور خود حکومت کا اعتراض یہ ہے کہ مدارس میں معیاری تعلیم نہیں دی جاتی ہے ، یہ طلبہ کے حقوقِ کے خلاف ہے ، جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ہر قسم کے حقوقِ کی حفاظت کرے ، مدارس میں سے جو مدارس مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں ،ان میں عصری مضامین شامل ہیں ، مگر معیاری تعلیم کی کمی ہے ، جہانتک آزاد مدارس کی بات ہے ، تو حکومت کی ایجنسیوں کا اعتراض یہ ہے کہ ان میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے ، عصری علوم کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے آزاد مدارس کے طلبہ معیاری تعلیم سے محروم ہیں ، جبکہ ان کے ابتدائی درجات عصری مضامین شامل ہیں ، مخالفین اور سرکار کے اعتراضات صرف ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر ہیں ، ایسے آزاد مدارس جن میں ابتدائی اور ثانوی درجات میں سال اور عصری مضامین کی کمی ہے ، ان میں سال کے اضافہ کے سال عصری مضامین کو شامل کردیا جائے ، تو اعتراض کا بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا ،اور مدارس کو بہت حد تک تحفظ فراہم ہو جائے گا ، اس سلسلہ چند ضروری باتیں تحریر ہیں
(1) مدارس ملحقہ یعنی جو مدارس ریاستی مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں ، اور بورڈ ایکٹ کے نصاب اور نظام کے تحت چلتے ہیں ، ایسے مدارس کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ مدارس میں معیاری تعلیم کا انتظام کریں ، مدارس کی صاف صفائی کی جانب توجہ دیں ، وغیرہ وغیرہ
(2) جہانتک آزاد مدارس یعنی جو مدارس ریاستی مدرسہ بورڈ سے ملحق نہیں ہیں ، بلکہ عوامی چندے سے چلتے ہیں ، ان کا اپنا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم ہے , ایسے مدارس میں سے بعض میں نصاب تعلیم 16/ سال اور بعض میں اس سے بھی زیادہ سال پر مشتمل ہے ، ان میں دینی اور عصری مضامین دونوں کی تعلیم دی جاتی ہے ، ایسے مدارس پر مخالفین اور حکومت کی زیادہ نظر نہیں ہے ، البتہ بعض آزاد مدارس ایسے ہیں جہاں ابتدائی درجات کا نصاب تعلیم 5/ سال یا اس سے کم ہے اور عربی درجات 8/ سال یعنی 13/ سال یا اس سے کم پر مشتمل ہے ، نیز ابتدائی 5/ سال میں عصری مضامین شامل ہیں ، مگر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں ، اسی پر زیادہ اعتراضات ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے دشواریاں پیش آتی ہیں ، اس لئے اس پر غور و خوض کر کے ایسے مدارس کے ابتدائی اور ثانوی سطح کے نصاب میں سال اور مضامین کا اضافہ کر کے میٹرک اور انٹر میڈیٹ معیار کا کردیا جائے ، تو بہتر ہوگا ، یعنی ابتدائی درجات کو 5/ سال کے بجائے 8/ سال اور عربی اول و دوم کو ملا کر 10/ سال یعنی میٹرک معیار کا کردیا جائے ، اسی طرح عربی سوم و چہارم 2/ سال کو ملا کر 12/ سال یعنی انٹرمیڈیٹ کے معیار کا کردیا جائے ، نیز ان میں ضرورت کے مطابق عصری مضامین شامل کر دیئے جائیں ، اور اوپر کے درجات حسب سابق رہیں ، تو اعتراضات بہت حد تک دور ہو جائیں گے ، اور اس سے طلبہ کا بھی فائدہ ہو جائے گا کہ وہ عصری علوم سے بھی واقفیت رکھنے والے ہو جائیں گے ،
موجودہ وقت میں مدارس کے قیام کی جانب زیادہ توجہ ہے جبکہ موجودہ وقت میں اس جانب توجہ کی زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اپنے مدارس کو معیاری بنائیں ، وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ کریں ، اعتراضات کے سدباب کی جانب توجہ دیں ، آئندہ مدارس قائم کریں تو اپنے معیار اور ملکی قوانین و ضوابط کو بھی پیش نظر رکھیں ، تاکہ ہمارے مدارس خطرات سے محفوظ رہیں ، نیز اس کی بھی ضرورت ہے کہ موجودہ وقت میں ماڈل مدارس قائم کئے جائیں ، جو درجہ اول سے عربی چہارم تک یعنی انٹرمیڈیٹ سطح تک ہو ، جس میں طلبہ کو دینی مضامین کے ساتھ عصری مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم کے مطابق تعلیم دی جائے ، اور طلبہ کے لئے عربی اور انگریزی کی پختہ اور مضبوط تعلیم کا انتظام کیا جائے ، اللہ تعالیٰ مدارس کی حفاظت فرمائے

تحریر: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی
11/ نومبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے