ہمارے معاشرے میں بچوں کے سامنے والدین کا رویہ

فلموں سے دل بہلاتا دیکھتے ہیں یا ذکر اللّٰہ سے؟

فجر پر اٹھتا دیکھتے ہیں یا دیر تک سوتا؟

نمازوں کا پابند دیکھتے ہیں یا لاپرواہ؟

دوسروں کی غیبت کرتا دیکھتے ہیں یا تعریف؟

نوکروں سے بدتمیزی، حقارت، اور بد اخلاقی سے پیش آتا دیکھتے ہیں یا سب کو عزت دیتا ہوا؟

رشتہ داروں کا خیال رکھتے اور صلہ رحمی کرتا دیکھتے ہیں یا بات بات پر تعلق توڑتا ہوا؟

اکثر خوش مزاج اور مسکراتا ہوا دیکھتے ہیں یا لڑتا جھگڑتا اور اکھڑا مزاج؟

ہر وقت مال کی حرص میں مبتلا دیکھتے ہیں یا قناعت کرتے؟

ہر وقت لاحاصل کے غم میں دیکھتے ہیں یا حاصل شدہ کے شکر میں؟

آپ کو محنت اور جدوجھد کرتا دیکھتے ہیں یا سست، کاہل، بہانے باز اور کام چور؟

اپنی شریک حیات کے ساتھ محبت، عزت، اور بھلائی کا رویہ دیکھتے ہیں یا جھگڑے، حقارت اور بے رغبتی کا؟

آپکو اپنے ماں باپ کی خدمت، فرمانبرداری، اور تکریم کرتا دیکھتے ہیں یا ان سے بدتمیزی اور بے اکرامی کرتا؟

آپ کو سیگریٹ، پان، یا کوئی اور نشہ کرتا دیکھتے ہیں یا ورزش اور دیگر صحت مند سرگرمیوں میں؟

آپکا ہر عمل آپکی اولاد بغور دیکھ رہی ہے۔
آپکی ہر عادت انکی شخصیت کا حصہ بن رہی ہے۔

آپ زبان سے لاکھ نصیحت کرلیں، اگر خود اچھی مثال قائم نہیں کریں گے تو اولاد صحیح راہ پر نہیں آئے گی۔
اس لئے دنیا و آخرت کی خاطر، اپنی اصلاح پر توجہ دیں۔
اور اپنی اولاد کیلئے ایک بہترین مثال بنے ایک بات میں نے غور کی ہے کہ جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں ان بچوں میں بے شمار صلاحیتیں ابھر کر آجاتی ہے جو کہ قابل تعریف ہوتی ہے۔
ایسے بچے اپنی عملی زندگی میں پر اعتماد نظر آتے ہیں، ان میں قائدانہ صلاحیتیں نظر آتی ہے، یہ غلطی کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں اور بڑے بڑے قدم اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرے قسم کے والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنے بچوں سے حاکمانہ تعلقات رکھتے ہیں، اور یہ قسم کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے۔
اس قسم کے والدین کے بچے والدین کے ڈر سے پڑھائی وغیرہ میں تو اچھا مظاہرہ کرلیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں یہ کافی سہمے ہوئے، خوداعتمادی سے خالی نظر آتے ہیں، ان میں احساس کمتری پایا جاتا ہے، ان کی ذہنیت میں لوگوں کی غلامی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
دوسری قسم کے والدین "اینگری مین” کہلاتے ہیں اور ان کا رویہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ان کے آنے کے بعد ایک اچھا خاصہ چہکتا مہکتا اور آباد سا گھر یکایک ویران سا پڑ جاتا ہے۔
تھوڑی دیر پہلے جو بچے مختلف قسم کی سرگرمیوں میں مشغول تھے وہ تمام کاموں کو چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے لگتے ہیں، بیوی بھی تمام کام دھیرے دھیرے خاموشی سے کرنے لگتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باپ کے آنے کے بعد بچے دوڑتے ہوئے باپ سے ملنے آئیں کوئی اسکے بیگ کو سلیقے سے اٹھائے کوئی اپنے دن بھر کے واقعات سنائے، کوئی کچھ مشورے لے، کوئی ابا سے دن بھر کے واقعات سنانے کی فرمائش کرے،
ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیۓ۔۔

ازقلم: محمد تبشر کبیرنگری بن سیف الدین مرحوم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے