مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی بھی مذہب کے زوال کا ایک قابل ذکر سبب اس مذہب میں ہونے والی حد درجہ شدت یا حد درجہ نرمی ہوتی ہے ، شدت کے سبب انسان عمل پیرا نہیں ہوتا اور اپنے دین سے بیزار ہو جاتا ہے ، نرمی اگر زیادہ ہو تو لبرل ازم جنم لیتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام میں شدت ہے نہ نرمی ، اسلام ایک معتدل مذہب ہے اور فلسفۂ اعتدال کا سب سے شاندار نمونہ بھی ، جو لوگ مذہب اسلام میں شدت اختیار کرتے ہیں وہ بھی اسلام کے حق میں مضر ہیں اور جو نرمی برتتے ہیں وہ بھی راہ غلط کے راہ رو ہیں ۔ یہاں فقط اعتدال مطلوب ہے اور وہی کارگر ہے !!
اسلام ایسی سختی کا طالب نہیں کہ ابن آدم کو مزاح و مزاق ہی سے دور کردے ؛ خشک مزاجی اور رہبانیت کا لبادہ اوڑھا دے ، جیسے کئی مذہب کے پیشواؤں میں یہ چیزیں عام ہیں ، دنیا کے تئیں اسی سوچ کے باعث ان کے اندر قدرت کے حسن و جمال کی طرف رغبت نہیں پائی جاتی ، لیکن اسلام مبنی بر اعتدال ہونے کی وجہ سے صرف پر سکون ہی نہیں بلکہ خوشگوار بھی ہے ؛ موافقِ فطرت بھی ہے ۔
فرمان رسول ہے کہ ,, اللہ تبارک و تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے ،، اسی لئے اس نے اپنے بندوں میں جمالیاتی ذوق پیدا کیا ہے ، ” جمالیاتی ذوق ” نام ہے لطف و جمال اور حسن و تناسب کی طرف انسان کے فطری میلان کا ، انسان خوبصورت اور بدصورت ، لطیف و کثیف ، باسلیقہ و بے سلیقہ ، مناسب اور بے جوڑ ، ہم آہنگ و بے ہنگم ، متوازن اور غیر متوازن کے درمیان تمیز کرتا ہے ۔ اسی ذوقِ جمال کی تسکین کی خاطر انسان کائنات کے حسین مناظر کو اپنا مرکزِ توجہ بناتا ہے ۔
ذوقِ سلیم فطرت کا خاصہ ہے اور اسلام فطرت کے عین موافق ہے ، فنون لطیفہ بھی اسی فطرت کی فراہم کردہ شئی ہے ، جس کی نفی خلافِ فطرت اقدام کے مترادف ہے ، یہی وجہ ہے دینِ اسلام اپنے حدود میں نہ صرف فنون لطیفہ کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے ۔
علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں : ,, اگر آرٹ کی روح احساس حسن و جمال اور اس کا ذوق لطیف ہے تو قرآن نے بارہا اس کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ جہاں قرآن اشیاء کے حسن و جمال کی جانب متوجہ کرتا ہے وہیں ان کے نفع بخش پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا چنانچہ قرآن پاک مادی پہلو سے استفادہ کے ساتھ ساتھ حسن و جمال سے استفادہ کو انسان کے لئے جائز ٹھہراتا ہے ،، ۔ (اسلام اور فنون لطیفہ ص ۲۵ از قرضاوی )
عصر حاضر میں کہیں کہیں یہ فکر مستقل ایک جگہ پکڑ چکی ہے ، کہ اسلام صرف زہد و عبادت والا معاشرہ ہے ، جہاں ہنسنے مسکرانے ، کھیلنے کودنے ، کھلکھلانے چہچہانے اور فرصت و شادمانی کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں ، شاید بعض دیندار کہے جانے والے لوگوں کا ایسا رویہ اس فکر کو تقویت پہنچاتا ہے ، ایسے لوگ ہمیشہ منہ بسورے اور پیشانی سکوڑے رہتے ہیں اور اپنے اس معیوب رویہ اور منقبض طبیعت کو دینی جواز فراہم کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بس غلط فہمی یا ذاتی نفسیاتی پیچیدگی کے سبب ہوتی ہے جب کہ اسلام خوشگواری تقسیم کرتا ہے ، حدودِ اسلام میں رہ کر انسان اپنی خوش ذوقی اور جمالیاتی حس کو جس قدر سامان فراہم کر سکتا ہے اسے کرنا چاہئے ، کیوں کہ قدرت کی خوش گواریاں ، بدیع ایجادات اور فنون لطیفہ کا وجود اسی لئے ہے ۔
تحریر : عاطف دهلوی