مسلم دانشوران کا مولانا سجاد نعمانی کے فیصلے پر حیرت کا اظہار

  • مہاوکاس اگھاڑی کو دی گئی حمایت تنازع کا شکار
  • مہاراشٹر کی انتخابی لڑائی مسلمان فریق نہیں ہیں، انہیں خوامخواہ فریق بنانے سے ہندو ووٹ ایک جٹ ہوسکتے ہیں اور ہریانہ کی سی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے: ماہرین

ممبئی : (نامہ نگار)
ممتاز عالم دین مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ممبئی کےمراٹھی پترکار سنگھ میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہاوکاس اگھاڑی کے 269 امیدواروں کی حمایت کا باقائدہ اعلان کیا۔ مولانا سجاد نعمانی نے 269 امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے عوام سے انہیں کامیاب بنانے کی اپیل کی ہے۔ مولانا سجاد نعمانی کی اس پیش رفت سے نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہےاور ان کے اس فیصلے کو ریاست اور ملک کا دانشور طبقہ غلط قرار دے رہا ہے۔
اس ضمن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور ہندوستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر محمد سجاد کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں کسے ووٹ دینا چاہیے۔ ملک کے حالات کے پیش نظر مسلمان میں اتنا سیاسی شعور تو پیدا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں مسلمانوں نے بہت سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرست طاقتوں کو مکمل اکثریت سے محروم رکھنےمیںنمایاں کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ مولانا سجاد نعمانی کا بیان اکثریت پرستی کی حمایت کرنے والا اوراقلیت سوزی والا بیان ہے۔ انہوں نے مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس طرح کے بیانات سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔
دریں اثناء مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اور این سی پی لیڈر سلیم سارنگ نے کہا کہ مسلم ووٹ کسی کی جاگیر نہیں ہیں، لیکن کچھ لوگ انتخابات کے وقت ووٹوں کی سودے بازی کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مولاناخلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے مہاوکاس اگھاڑی کے 269 امیدواروں کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ این سی پی (اجیت پوار) کے ایک امیدوار کا نام بھی ان کی فہرست میںشامل نہیں ہے۔ سلیم سارنگ نے کہا کہ این سی پی ( اجیت پوار) نے اپنے حصے میںآنے والی 10 فیصد نشستوں پر مسلم امیدواروں کونامزد کیا ہے۔ ان میں سابق ریاستی کابینی وزیر حسن مشرف، نواب ملک، ثنا ملک، ذیشان صدیقی اور نجیب ملا شامل ہیں۔ ان میں کچھ امیدوار مضبوط پوزیشن میں ہیں، اس کے باوجود مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے ان کے سامنے کمزور امیدواروں کی حمایت کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو مسلم امیدوار الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی انہیں بھی شکست سے دوچار کروانا چاہتے ہیں۔ سلیم سارنگ نےمزید کہاکہ مولانا سجاد نعمانی ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ مسلم ووٹ کسی کی جاگیر نہیں ہے، لیکن آج وہ خود مسلم ووٹوں کو ایک مخصوص سیاسی گروہ کی جاگیر ثابت کرنے کے در پے ہیں، حالانہ انہیں اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر اور معروف کاروباری شخصیت ظفر سریش والا نے کہاکہ مسلم ووٹر کسی کی ہدایت پر نہیں بلکہ خودمختار ہوکر ووٹ کرتا ہے۔ علمائے کرام کو الله تعالیٰ نے دین کی خدمت کی ذمہ داری سے سرفراز کیا ہے اور انہیں اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخابی لڑائی مرکزمیں نریندر مودی بنام راہل گاندھی اور مہاراشٹر میں دیویندر فڑنویس، ایکناتھ شندے بمقابلہ شردپوار، ادھوٹھاکرے نانا پٹولے کے درمیان ہے۔ اس لڑائی مسلمان فریق نہیں ہے ،اس کے باوجود مسلمانوں کو اس میں زبردستی کھینچا جارہا ہے۔ علماءاکرام اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ سیاسی چال بازیوں سے سمجھیں اور قوم کو اس سے آگاہ کریں، نہ کہ خود ان کا شکار ہوجائیں۔
مہاراشٹرمسلم ووٹرس کونسل کے کنوینر عبدالباری خان نے کہ مولانا سجاد نعمانی کے بیان سے مسلم ووٹرس میں کنفیوزن پیدا ہوگا جس کے نتیجے میں مسلم ووٹ انتشار کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس صورت حال میں مہاراشٹر میں بھی ہریانہ جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ معروف عالم دین اور رضا فاؤنڈیشن کے روح رواں مولانا انیس اشرفی نے ملک کا مسلمان ووٹر سیکولرازم اور ملک کے آئین کے تحفظ کو نگاہ میں رکھ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتا ہے۔ گذشتہ دنوں آل انڈیا علماء کونسل نے 17مطالبات کی تکمیل کے عوض مہاوکاس اگھاڑی کو حمایت دینے کے متعلق ایک مکتوب جاری کیا تھا۔ مکتوب میڈیا کے ہاتھ لگ گیا اور نیشنل میڈیا نے ہندو ووٹرس کو ایک جٹ کرنے کےلیے اسے ایک بڑا ایشوبنادیا تھا۔ اس ایپی سوڈ کے بعد مولانا سجاد نعمانی کا کھلے عام پریس کانفرنس میں مہاوکاس آگھاڑی کی حمایت سمجھ میں نہ آنے والا فیصلہ ہے۔
واضح ہو کہ مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ ان کی جانب سے مہاوکاس اگھاڑی کو دی گئی حمایت کا آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، بلکہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے