حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددیؒ: ایک شخص، ایک کارواں

کسی مرد دانا نے کہا ہے کہ یورپ میں جو کام اکیڈمیاں کرتی ہیں ، بر صغیر میں ایک شخص وہ کام انجام دیتا ہے،یہ جملہ یونہی نہیں کہا گیا ،بلکہ مکمل جائزہ اور طویل تجربہ کا نتیجہ ہے ، غور کیا جائے تو حضرت شاہ ولی اللہ دھلویؒ نے جو ہمہ جہت خدمات قرآنیات اور حدیثیات ، فقہیات ، علوم عربیہ اور دین کے اسرار وحکم اور مصالح شریعت سے متعلق انجام دی ہیں ، وہ اس دعوی کی دلیل کے لئے کافی ہیں ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کی تعداد نو سو بتائی جاتی ہیں ، حضرت مولانا سید عبد الحی حسنی نے نزھۃ الخواطر کے نام سے آٹھ جلدوں میں چار ہزار سے زیادہ علماء ، صلحاء ، مفسرین ، محدثین ، فقہاء ، شعراء ، متکلمین اور صوفیاء وغیرہ کے حالات کو تفصیلی تذکرہ کیا ہے ،مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی کتابوں کی تعداد تین سو سے متجاوز ہے ، ان کی شخصیت بھی اپنی ذات میں انجمن کی مصداق ہے ۔
حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی نقشبندی کی ذات میں گونا گوں کمالات جمع ہیں ، ایک طرف وہ راہ سلوک کے عظیم مجاہد ہیں تو دوسری طرف مدارس و مکاتب کے معمارو ذمہ دار ،ان دونوں خصوصیات کا تذکرہ ہی ان کے کمالات کی خوشبو بکھیرنے کے لئے کافی ہے ۔

کسی شخصیت کی تعمیر میں توفیق الہی کے بعد سب پہلی چیز اس کے اساتذہ اور مربیان اور وہ فضا معاون ہوتی ہے ، جہاں اس نے پرورش پائی ، اور اس کی نشو ونما ہوئی ، حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی کی ولادت تو  ۱۹۲۰؁ء میں ہوئی ، اور  ۱۹۲۰؁ء کایہ زمانہ ہندوستان میں انتشار کا زمانہ تھا ، ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی ، وہ ہر محاذ پر باشندگان ہند کو نقصان پہونچانے کے در پر تھے ، بلکہ براہ راست ان کو نشانہ بنا رہے تھے ، اسی سال تحریک خلافت قائم ہوئی، جس کے کرتا دھرتا علی برادران تھے ، انہوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی توانائی صرف کی ، ملک کے اندر اس وقت کئی مدارس سرگرم عمل تھے ، جن میں دہلی کا مدرسہ رحیمیہ ، کلکتہ کا مدرسہ عالیہ ،رامپور کا مدرسہ رامپور ، فرنگی محل کا مدرسہ نظامیہ،دار العلوم دیوبند ، مدرسہ مظاہر علوم سہاررنپور ، دارالعلوم ندوۃ العلماء وغیرہ ۔ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں ، اور قرب و جوار کے حالات سے اندازہ لگالیا کہ معاملہ نازک ہے ، اور پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے ، ان کے دادا محترم حضرت مولانا شاہ ہدایت علی اصلا رامپور کے رہنے والے تھے ، انہوں نے جے پور کو اپنی فرود گاہ بنائی تھی ، اور وہیں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ قیام پذیر تھے ، ان کے صاحبزادے حکیم الطاف علی خان صاحب تھے ، جو حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی کے والد محترم ہیں ۔اور ان کا خصوصی موضوع حکمت اورطبابت تھا ، اور اسی کو بطور پیشہ بھی اختیار کئے ہوئے تھے ۔ لیکن اللہ تعالی نے مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی نقشبندی کے لئے دینی و روحانی میدان کا انتخاب کیا ، اور ان کو دین کے لئے مکمل طور پر قبول کر لیا،اور دادا محترم حضرت مولاناشاہ ہدایت علی نقشبندی کی تربیت و نگرانی میں اپنے علمی و تعلیمی سفر کا آغاز کیا ۔
     انیسویں صدی کے آغاز میںاسلامیان ہند کا قابل فخر ادارہ مدرسہ نظامیہ فرنگی محل لکھنؤعلم و تعلیم کی شمع روشن کئے ہوئے تھا ، جویان علم ملک کے اطراف و اکناف سے اس میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے اور اپنے دامن مراد کو بھر کر ملک کے مختلف حصوں میں دین کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ، انھیں علم دین کے پیاسوں میں حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی بھی تھے ، جنہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا محترم سے حاصل کرنے کے بعد انہیں کے ایماء پر مدرسہ نظامیہ فرنگی محل کا رخ کیا ، اور علم دین کے حصول میں مشغول ہوگئے ، بیس سال کی عمر میں      عا  لمیت کی تکمیل کی ، پھر اپنے وطن جے پور داد امرحوم کے پاس گئے ، آپ کاا رادہ مزید تعلیم کا تھا ، خاص طور سے تفسیر قرآن کریم سے آپ کو غیر معمولی مناسبت تھی ، لیکن داد ا مرحوم نے ان کو اپنے ساتھ دینی و تربیتی کاموں میں مشغول رکھا ،اور فرمایا کہ عبد الرحیم ! اب مجھے خود تمہاری ضرورت ہے ، یہاں تک کہ آپ اس راہ کی عظیم شخصیت بن گئے ۔

حضرت مولانا شاہ ہدایت علی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے عظیم بزرگ تھے ، حضرت مجدد الف ثانی تک بارہ واسطوں سے پہونچتے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف تھے ، ان میں معیار السلوک اور دافع الأوہام و الشکوک ہے ، اور یہ ان کی اہم ترین کتاب مانی جاتی ہے ، اسی عالی مقام بزرگ کی صحبت میں حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم نقشبندی نے اپنا  سفر زندگی شرووع کیا ، سفر وحضر میں ساتھ رہتے تھے اور دادا جان سے استفادہ کرتے تھے ، گجرات کا سفر ہو یا راجستھان کا ،یوپی کا سفر یا ہندوستان کے مختلف علاقوں کا ، حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی سایہ کی طرح رہے ، جس کا اثر یہ ہوا کہ انہوں نے دادا مرحوم کے علوم و معارف کو پی لیا ، اور اور ان کی روحانیت کا جذب کر لیا ، پھر ایک موقع آیا کہ حضرت مولانا شاہ ہدایت علی نے فرمایا : میرے بعد میرا عبد الرحیم ہے ۔ حضرت مولانا شاہ ہدایت علی کا انتقال ۲۶؍ جون ۱۹۵۱؁ء کو ہوا ،اس وقت مولانا عبد الرحیم مجددی کی عمر ۳۱ سال تھی ۔
دادا جان کے انتقال کے بعد حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی نے علمائے امت سے رابطہ کیا ، اس سلسلہ میں سب سے پہلے جس شخصیت سے آپ متأثر تھے ، بلکہ فرنگی محل کے دوران تعلیم جس کے درس قرآن منعقدہ مر کز تبلیغ ودعوت میں بار بار حاضر رہے وہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت تھی ۔ اہل اللہ کی پہچان یہی ہے کہ اپنے بڑوں کی سرپرستی میں ہمیشہ رہتے ہیں ، ایک صاحب دل رخصت ہوتے ہیں تو دوسرے کو اپنا سرپرست بناتے ہیں ، حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی کا یہ تعلق مرور زمانہ کے ساتھ بڑھتا گیا ، یہاں تک کہ اس کے دررس نتائج سامنے آئے ۔
راہ سلوک کے عظیم مجاہد :
تصوف و سلوک اور تزکیہ و احسان ایک بنیادی ضرورت ہے ، وہ نبوی مشن کا ایک حصہ ہے ، اس کے ذریعہ دل کی دنیا آباد، بلکہ شاد ہوتی ہے ، راہ سلوک کے مسافرین میں جن حضرات نے اس کو وقت کی ضرورت قرار دیاہے ان میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، ان کی ’’المنقذ من الضلال‘‘ اس موضوع پر ہر انسان کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے ، حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددیؒ نے چونکہ داد امرحوم کی نگرانی میں تربیت حاصل کی تھی ، اس لئے اس راستہ کے پیچ و خم سے واقف تھے ، وہ ان تمام وظائف کے پابند تھے ، جو دادا محترم کے تھے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی گفتگو میں غیر معمولی تاثیر رکھی تھی ، وہ جس سے بھی جس موضوع پر بات کرتے اس کا زبردست پڑتا تھا ۔
حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی معمولات کو دل کی غذا سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہے اپنے متوسلین کو استغفار اور درود شریف کے پڑھنے کی تلقین کرتے تھے ، ایک موقع پر فرمایا : استغفار کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ طالب کا جو وقت غفلت میں گذرا ہے ، استغفار کی برکت سے اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے غفلت کے وقت کو بھی ذکر میں شمار فرماتے ہیں ( مقامات رحیمی : ۷۰) ، محترم جناب حاجی عبد العزیز بھائی ٹیلر کا بیان ہے کہ مدینہ منورہ کی حاضری کے دنو ں میں روز مرہ کم از کم گیارہ ہزار مرتبہ درود شریف پرھنے کا آپ کا معمول ہوا کرتا تھا ( مقامات رحیمی : ۷۲) ۔
تصوف میں استغراق کی کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب ذاکر ذکر کرتے کر تے اللہ کی یاد میں کھوجاتا ہے ، تصوف کی اصطلاح میں اس کو استغراق کہا جاتا ہے ، ایک مرتبہ قیام مدینہ کے دوران حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی عشاء کی نماز کے بعد اس طرح دو زانو ںاستغراق میں بیٹھے کہ دو بجے پہلو بدلا ۔( روایت ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط ، مولانا عبد الرحیم مجددی حیات و خدمات جلد اول : ۶۶)

حضرت مولانا عبد الرحیم مجددی کو اتباع سنت کا بڑا اہتمام تھا ، لباس میں چال ڈھال میں گفتگو میں بلکہ روزمرہ کے معمولات میں سنت نبوی کو پیش نظر رکھتے تھے ، اور اکثر یہ شعر پڑھتے تھے :
خلاف پیمبر کسے رہ گزید    کہ ہر گز بمنزل نہ خواہد رسید
( جو شخص حضرت رسول اکرم ﷺ کی سنتوں کے خلاف طریقہ زندگی اختیار کرتا ہے ،وہ ہر گز اپنی کامیابی کی منزل یعنی فلاح آخرت کو نہیں پاسکتا ) ۔
حقیقی بزرگ کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ حضرت شاہ صاحب نرم گو تھے ، کم گو تھے ، مگر یہ نرمی ہر بات کو قبول کرنے والی نرمی ہر گز نہ تھی ، یہ تو ان کا لہجہ تھا ، ورنہ وہ اپنے ارادہ میں بڑے مستحکم اور اپنی رائے میں جمنے والے تھے ،، بزرگوں نے تو نہیں سکھایا ، مگر بزرگی کا یہ مطلب سمجھا جاتا ہے کہ بزرگ آٹے کی لوئی ہوتا ہے ، جدھر سے انگلی رکھئے، دھنس جائے گی ، بزرگ وہ ہے جو ہر ایک کی بات مان لے ، جس کی مروت کا دائرہ اتنا پھیلا ہوا ہو کہ اس میں ہاں نہیں ، غلط صحیح سب چل سکے ، بزرگ وہ ہے جو نا کہنا جانتا نہ ہو ، بزرگی کا یہ تخیل بہت عام مگر انتہائی جاہلانہ ہے ،جو شخص لا الہ کی ضرب سے اپنی راتوں کو زندہ کرتا ہے ، جو ’’ لا ‘‘ کے ذریعہ اپنے دل میں نفی تام کی آبیاری کرتا ہے ، وہ زندگی کے اہم امور میں ’’ نا ‘‘ کہنا نہ سیکھ سکے ،     یہ ’’ لا‘‘ کے ساتھ ناا نصافی ہوگی ، ’’ لا ‘‘ کی ضرب مسلسل  معبودان باطل سے ٹکرانے اور اندر کے کفر کو توڑنے کا حوصلہ بخشتی ہے ، ’’ لا ‘‘ کا اعلان ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں گے ، باطل کا مقابلہ کریں گے ‘‘۔( ماہنامہ ہدایت جے پور نومبر ۱۹۹۴ء  : ص: ۸۳۔۸۲) ۔
سلسلہ تصوف میں آپ نے متعدد افراد کو اجازت و خلافت عطا فرمائی ، جن آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ فضل الرحیم مجددی ہیں ، جن کو ۱۹۸۲؁ء میں اجازت و خلافت ملی اور وہ ’’ الولد سر لأبیہ ‘‘ کے مطابق اصلاح و تربیت کا نظام جاری رکھے ہوئے ہیں ، ہزاروں بندگان خدا ان سے فیضاب ہو چکے ہیں ، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

جامعۃ الھدایۃ کا قیام اور اس کا عظیم تخیل :
حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی دین و دنیا کی جامعیت کے قائل ہی نہیں ، بلکہ اس کے داعی تھے ، جد محترم حضرت مولانا شاہ ہدایت علی سے انہوں نے اسی کی تعلیم حاصل کی تھی ، مزید لکھنؤ کے زمانہ قیام میں مرکز تبلیغ و دعوت میںوہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے درس قرآن میں شریک تھے ، اور ان کی شخصیت سے متأثر تھے ، بلکہ تحریک حضرت سید احمد شہید سے ان کا غیر معمولی تعلق تھا ، اور ٹونک میں حضرت شاہ کا نانیہال تھا ، جہاں حضرت سید احمد شہید کا قیام رہا ، اس سے یہ تأثر بفضلہ تعالی اخیر تک رہا ، حضرت مولانا کی شخصیت سے انہوں نے جامعیت کا تخیل لیا اور اعتدال و وسطیت کا بھی، یہی وجہ ہے کہ جب جے پور میں جامعۃ الھدایۃ کے قیام کا فیصلہ ہوا تو حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کو سنگ بنیاد کے لئے مدعو کیا ، حضرت مولانا ۱۹۷۶؁ء میں جے پورتشریف لے گئے اورپھر اس کے افتتاح( ۱۹۸۵؁ء ) کے موقع پر بھی حضرت مولانا کا جے پور کا سفر ہوا ،اور ندوہ کا ایک وفد بھی ان کے ساتھ تھا ، حضرت مولانا نے ایک جامع خطبہ دیا اور مؤثر تقریر کی ، جو ( مدرسہ کیا ہے ) کے عنوان سے پاجا سراغ زندگی میں موجود ہے ۔

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ نے قرآنی آیت ( ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا و ینشر رحمتہ وھو الولی الحمید کو موضوع بنا کر ایک اہم خطبہ دیا ،فرماتے ہیں :
’’ ہمیں ایسے مدرسے کی ضرورت ہے ، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ جس مدرسہ کا نام ہی جامعہ ہدایت ہے، وہاں کے طلباء اور فضلاء کو اس سے یہ ہدایت ملے گی کہ وہ غیرت اور خودداری سیکھیں ، ان علمائے ربانیین سے اور علمائے حق سے ، جن کے واقعات سے تاریخ لبریز ہے ، اس خودداری کا سبق سیکھیںکہ یا پاؤں پھیلالیں یا ہاتھ پھیلالیں ۔
خدا کا شکر ہے کہ ہوا رخ پر چلنا مدرسہ کا اصول نہیں ہے ، اگر یہ مدرسہ کا اصول ہوتا تو کب کے انگریزی کے ، عربی کے کالج بن چکے ہوتے ، لیکن جو اس وقت گنے چنے مدرسے باقی ہیں ،وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ مدرسوں  نے ہوا کے رخ پرچلنے کو قبول نہیں کیا ۔
میں ان ا لفاظ کے ساتھ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم مجددی کی ذرہ نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں اس اہم اور اس بابرکت اور عالی کام کے لئے مجھ جیسے طالب علم کا انتخاب کیا ، اللہ تعالی جامعہ کو ہمیشہ سرسبز اور شاداب رکھے ، اور صحیح معنوں میں اس کو مرکز ہدایت بنائے آمین‘‘ ( پاجا سراغ زندگی ص: ۲۰۰)
بحمد اللہ جامعہ جس تخیل اور جامعیت قدیم و جدید کے ساتھ قائم ہوا تھا ، اس میں کامیاب رہا ، اور فکر معاد کے ساتھ فکر معاش کا بھی معقول انتظام کیا جا تا رہا ہے ، بلاشبہ اس جامعہ میں ندوہ کی شان اور علی گڑھ کی آن بان نظر آتی ہے ، اس جامعہ میں صرف منفعت ہی نہیں بلکہ مقصدیت ہے ، اس جامعہ کو انھیں کے اخلاف حضرت مولانا فضل الرحیم ندوی وحضرت مولانا ضیاء الرحیم ندوی مجددی کو حق حاصل ہے کہ ا س سلسلہ میں اپنی کوششوں کو صرف کریں ۔ و ماذلک علی اللہ بعزیز ۔

تحریر : (مولانا ڈاکٹر) محمد فرمان ندوی
استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء ، لکھنؤ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے