رزق حلال اور اس کے ثمرات

موجودہ دور میں مال و زر کی ریل پیل ہے، سامان تعیش کی بہتات ہے، خواہشات کی تکمیل گھنٹوں منٹوں اور سکنڈوں میں ہورہی ہیں، اس کے باوجود ہم مسلمان شکوہ کناں اور شکوہ سنج ہیں کہ زندگی میں لذت نہیں ہے، چین و سکون عنقا ہے، حالات جبڑے کھولے ہوئے ہیں، زندگی جہنم بنی ہوئی ہے، عبادت میں لذت ہے نہ ریاضت میں دلچسپی ،نگاہ میں پاکیزگی ہے نہ فکر میں بالیدگی، زندگی بے کیف و سرور ہے، نرم و نازک بستر پر بھی رات گئے تک صرف پہلو بدلنا ہوتا ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
آل و اولاد نافرمان ہوچکی ہیں، اپنے منافقت پر اتر آئے ہیں، عرصہ سے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ پھیلا رہے ہیں لیکن حالات جوں کا توں ہے ،ہر آئے دن نت نئے بیماریوں اور پریشانیوں کا سامنا ہورہاہے ۔
اس کی وجہ جہاں بہت ساری چیزیں ہوسکتی ہیں وہیں ایک اہم چیز "رزق حلال” کی کمی بھی ہے ،جب ہم اپنے معاشرے اور ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے ہاں "رزق حلال” کی فکر و سوچ عنقاء معلوم ہوتی ہے ، ہمارے معاشرے میں شعوری یا لاشعوری طور پر یہ مزاج ہوگیا ہے کہ بس مال و زر حاصل ہوجائے خواہ جائز ہو یا ناجائز ،حلال ہو یا حرام ،طیب ہو یا خبیث، حدود شرع کے اندر ہو یا باہر اس کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ بس ایک ہی دوڑ ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال و زر جمع کر لیا جائے۔
اور جب مال حلال کے بجائے حرام طریقے سے جمع کیا جائے گا اور پھر اسی حرام و ناجائز مال و زر سے ملبوسات و مشروبات اور ماکولات استعمال کئے جائیں گے تو یقیناً اس کے اثرات انسانوں پر ظاہر ہوں گے اور انہیں چیزوں کا آج ہم اپنے معاشرے میں مشاہدہ کررہے ہیں۔
ماہ نامہ” الابرار "کےاداریہ میں اس سے متعلق بڑی اچھی بات لکھی ہوئی ہے، مدیر لکھتے ہیں:
"اس لئے بحیثیت مسلمان کے چاہے نمازی ہو،حاجی ہو، سید ہو،ڈاکٹر ہو ،انجنئر ہو ،پروفیسر ہو کسی بھی برادری اور معاشرہ کا فرد ہو وہ اس بات کا پابند ہے کہ اپنی غذاؤں،ملبوسات اور معاملات کو شریعت کے احکامات کے مطابق کرے کیونکہ ان چیزوں کے اثرات انسان کی معاشرت اور کردار پر نمایاں طور سے مرتب ہوتے ہیں،چنانچہ آج کے جدید سائنس کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ انسان جو غذائیں استعمال کرتا ہے ان کا اس کے جسم کے علاوہ اس کی عادات و اطوار پر بھی اثر پڑتا ہے، چنانچہ جس غذا سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے جسم کے اندر اسی طرح کی خصوصیات و صفات پیدا ہوتی ہیں اس لئے اگر انسان کی غذا پاک اور حلال ہو تو اس میں اچھی صفات پیدا ہوتی ہیں۔”(ماہ نامہ”الابرار” کراچی،ستمبر 2023/ء)
رزق حلال ،پاک و طیب غذا کا اثر انسانی جسم پر ہوتا ہے اکل حلال سے اچھی صفتیں پیدا ہوتی ہیں ،انسانوں میں سب سے اچھے، سب سے اشرف، سب سے اعلیٰ انسان ،اخلاق و اطوار،گفتار و کردار کے اعتبار سے حضرات انبیاء علیہم السلام ہیں ، جن کے بارے میں یہ وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ رزق حلال کے سوا کھاتے ہوں، ان پاکباز اور پاک طینت ہستیوں کو کہا گیا کہ صاف ستھرا اور پاکیزہ مال کھاؤ ارشاد ربانی ہے:
اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزوں میں سے (جو چاہو) کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے۔(المؤمنون:51)
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا عاشق الہٰی بلند شہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں کو حکم دیا کہ تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے بیشک اللہ پاک ہے اور وہ پاک ہی کو قبول فرماتا ہے (پھر فرمایا کہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو جو حکم دیا ہے وہی مومنین کو حکم فرمایا ہے رسولوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے رسولو پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو، اور مومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے ایمان والو تمہیں جو پاکیزہ چیزیں دی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ ( رواہ مسلم ج 1 صفحہ 326)
یہ حکم تین چیزوں پر مشتمل ہے کہ ایک یہ ہے کہ حرام اور خبیث چیزیں نہ کھائیں دوسرے یہ کہ جو پاکیزہ چیز نصیب ہو اسے کھا لیں تیسرے یہ کہ کھائیں بھی اور نیک عمل بھی کریں، پاکیزہ چیزیں کھانے سے جو صحت اور قوت حاصل ہو اسے اللہ کی فرماں برداری میں خرچ کریں، اس کے احکام پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے منتفع ہونا اور انہیں گناہوں میں لگانا یہ ناشکری ہے، سورة سبا میں فرمایا: کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اس کا شکر ادا کرو۔ کوئی شخص بھی عمل کرے یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کو میرے سب اعمال کا علم ہے اعمال صالحہ باعث اجر ثواب اور برے اعمال آخرت میں مواخذہ کا سبب ہیں۔(انوار البیان)
صاحب فہم القرآن مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام ؑ کو ایک جماعت ہونے کی بناء پر ایک ہی تعلیم دی تھی جس کا خلاصہ تین احکام میں ذکر کیا ہے (1)حلال اور طیب کھاؤ۔ (2)نیک اعمال کرتے رہے۔ (3)سب کا ایک ہی رب ہے اسی سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
یہاں اعمال کی قبولیت کے لیے تین شرائط ذکر کی گئی ہیں۔
پاک اور حلال رزق کا اہتمام کیا جائے جو شخص حلال اور طیب روزی کا خیال رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ صالح اعمال کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ صالح اعمال اس وقت قبول ہوتے ہیں جب ایک رب پر ایمان لایا جائے اور اس سے ڈرتے ہوئے شرک و بدعت اور برے اعمال سے بچا جائے۔
”حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول معظم ﷺ نے فرمایا ‘ بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ”میرے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔“ اے ایمان والو ! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے پراگندہ بال ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب ! یارب ! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام ‘ اس کا لباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے ؟۔“(صحیح مسلم)
آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ حرام خور انسان دعا کی قبولیت کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔(فہم القرآن)
حضرت مولانا عاشق الہٰی بلند شہری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں اسی آیت کی تفسیر کے اخیر میں فائدہ : کے تحت لکھتے ہیں: "( پاکیزہ چیزوں میں سے جو چاہو کھاؤ اور نیک عمل کرو۔) میں اس طرف ارشاد ہے کہ حلال غذا کو عمل صالح میں بڑا دخل ہے، جب غذا حلال ہوتی ہے تو خود بخود اعمال صالحہ کی رغبت ہوتی ہے اور غذا حرام ہو تو اعمال صالحہ کی طرف طبیعت نہیں چلتی شیطان حرام کی طرف کھینچتا ہے اور گناہ کرواتا ہے عموماً اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔”(انوار البیان)
رزق حلال کا سب سے نمایاں فائدہ یہی ہے کہ اکل حلال سے اعمال صالحہ کا صدور کثرت سے ہوتا ہے، نیک عمل کرنے کا جذبہ و شوق پیدا ہوتا ہے،عبادت و ریاضت میں لذت معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اکل حلال توفیق بخشے ۔(آمین)

تحریر: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے