الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول الله، أما بعد:
موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے، جہاں دنیاوی ترقی، مادیت پرستی، اور دین سے دوری بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں دین کی حفاظت ہر مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ حفاظت ایمان، عقائد، عبادات، اور اسلامی اَقدار کے تحفظ سے ممکن ہے۔ درج ذیل نکات دین کی حفاظت کے لیے کار آمد بن سکتے ہیں:
قرآن اور سنت کی پیروی
دین کی حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ قرآن کریم اور سنتِ رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا“. (آل عمران)
یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت کرو۔
مسلمانوں کو اپنی زندگی کے تمام معاملات میں قرآن و سنت کو رہنما بنانا ہوگا، تاکہ وہ گمراہی سے بچ سکیں۔
علم دین حاصل کرنا
دین کے علم کے بغیر دین کی حفاظت ممکن نہیں۔ موجودہ دور میں بہت سے غلط نظریات اور بدعات دین کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں، جنہیں صحیح علم کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے علماء سے رجوع کریں، مستند کتب کا مطالعہ کریں، اور دینی مدارس یا آن لائن کورسز سے استفادہ کریں۔
اپنے اعمال کی اصلاح
اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا اور اپنی عبادات کو خالص اللہ کی رضا کے لیے انجام دینا دین کی حفاظت کا اہم حصہ ہے۔ نماز، روزہ، زکوة اور دیگر فرائض کی پابندی کریں اور گناہوں سے اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
”قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا“ (الشمس)
یعنی کامیاب وہی ہے جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔
اخلاق اور کردار کی مضبوطی
اسلامی اخلاق کو اپنانا اور انہیں دوسروں تک پہنچانا دین کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
”إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق“.
یعنی میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔
موجودہ دور میں بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ عام ہو چکی ہے، جس کا مقابلہ اعلیٰ اخلاق اور سیرت نبوی ﷺ کی پیروی سے کیا جا سکتا ہے۔
دعوت و تبلیغ
دین کی حفاظت کے لیے اسے دوسروں تک پہنچانا ضروری ہے۔ دعوت کا فریضہ ہر مسلمان پر ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”بلغوا عني ولو آية“.
یعنی میری طرف سے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو، پہنچاؤ۔
دعوت کے ذریعے دین کا پیغام پھیلانے سے نہ صرف دین محفوظ رہتا ہے، بلکہ مسلمانوں کے دلوں میں دین کے لیے محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔
فتنوں سے بچنا اور صبر کرنا
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
”سيأتي على الناس سنوات خداعات، يصدق فيها الكاذب ويكذب فيها الصادق“.
”یعنی عنقریب فتنوں کا ایسا زمانہ آئے گا جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا“۔
ایسے حالات میں دین پر ثابت قدم رہنا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا دین کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔
اجتماعی نظام کا قیام
مسلمانوں کو اجتماعی طور پر دین کی حفاظت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ مسجدوں، مدارس، اور دینی تنظیموں کے ذریعے دین کی خدمت اور مسلمانوں کو بیدار کرنا بہت اہم ہے۔
گھر کے ماحول کی اصلاح
دین کی حفاظت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ بچوں کو دین کی تعلیم دینا، انہیں قرآن و سنت کے مطابق تربیت دینا، اور گھر میں اسلامی ماحول قائم کرنا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
دعا اور توکل
آخر میں، اللہ تعالیٰ سے دین پر ثابت قدمی کی دعا کرنا اور ہر معاملے میں اسی پر بھروسہ کرنا ضروری ہے۔ نبی کریم ﷺ کی یہ دعا یاد رکھیں:
”اللهم يا مقلب القلوب ثبت قلبي على دينك“.
”یعنی اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ“۔
اختتامیہ
موجودہ حالات میں دین کی حفاظت ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ہم انفرادی، خاندانی، اور اجتماعی طور پر دین کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پر ثابت قدم رکھے اور دین کی خدمت کا موقع عطا فرمائے۔ آمین۔
از قلم: عبدالاحد بستوی
مدیر ماہنامہ ”صدائے اسلام“ مہدوپار