فکر کی بنیادیں
انتہا پسندانہ ہندو قوم پرستی ہندوستان کی تاریخ میں نہایت پرانا رجحان ہے۔ 1915 میں ہندو مہا سبھا کے نام سے پہلے کانگریس کے اندر ہی ایک پریشر گروپ منظم کیا گیا 27ستمبر1925 ناگپور میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا ۔ونایک دامودر ساورکر اس کے نظریہ سازوں میں ایک اہم نام ہے ۔انھوں نے اسے ایک نظریہ دیا ۔”سیاست کا ہندو کرن اور ہندو قوم کا فوجی کرن ". مہاسبھا ہی کے ایک کارکن ڈاکٹرہیڈگیوار نے سبھا سے الگ ہو کر آر ایس ایس قائم کی۔دوسرے سر سنگھ چالک،مادھو راؤ گولوالکر نے ہندو عوام میں مقبول بنایا ۔دین دیال اپادھیائے نے سیاسی جماعت جن سنگھ 1951 میں اوراس کی بدلی شکل بھارتیہ جنتا پارٹی 1980 میں تشکیل دی۔ اس کے اصل نظریہ ساز مانے جانے والے بلراج مدھوک،ایس سدرشن،ایچ وی سیشادری،اٹل بہاری واچپائ،بھیا جی جوشی،منموہن ویدیہ نظریہ سازوں میں اہم ہیں ۔
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
آر ایس ایس کے 50/60 لاکھ ممبران اور کیڈر ہے جو اپنے نظریات ،مشن کے فروغ کے لیے انتھک کوشش کرتے ہیں۔اے جی نورانی کی کتاب The RSS:A MENACE TO INDIS کی معلومات کے مطابق RSS کے سب سے نچلے یونٹ کو شاکھا کہتے ہیں۔ یہ لوگ پارکوں ،میدانوں میں ڈرک ،ورزش،کھیل کود،لاٹھی ،جوڑو کراٹے اور یوگا کی مشق ،قومی گیت اور نعروں سے لوگوں کو قریب کرتے اور یونٹ انچارج افراد کی ذہن سازی کرتا ہے۔
سر سنگھ چالک کی مدد کے لیے چار راسٹریہ ساکرواہ یعنی معتمد ہوتے ہیں۔اس کے بعد کے کے چھے تنظیمی ڈھانچے ہیں جن میں کیندر کاری منڈل،اکھل بھارتیہ پرتیندھی سبھا ،پرانت یا ضلع سنگھ چالک،پرچارک،کاریہ منڈل ہوتے ہیں۔پورے ملک میں اس کی 84877 شاکھائیں منظم اور فعال ہیں۔
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں Sister Organisationsکی تعداد 100 سے زائد ہیں ۔
ہر طبقے اور عمر والوں کے لیے کوئ نہ کوئ تنظیم موجود اور فعال ہے۔بجرنگ دل،بھارتیہ مزدور سنگھ،سیوا بھارتی،ونواسی کلیان آشرم ،ون بندھوا پریشد،دانشوروں کے لیے وچار منچ ،طلبہ اور نوجوانوں کے لیے(ABVP) اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد،ودیا بھارتی,ہندوستان پرتشٹھان،وشو ہندو پریشد
مسلمانوں میں آر ایس ایس کا کام اور نظریہ پھیلانے کے لیے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماء نامی تنظیمیں میدان سنبھالے ہوئے ہیں ۔ ملک سے باہر 39ممالک میں شاکھائیں ہیں امریکہ میں 146,برطانیہ میں 84 دیگر ممالک میں بھی کام ہے۔وزیر اعظم کے بیرون ملک دوروں میں ان کے پروگرام اس کے شاید ہیں ۔ مشرق وسطی کے مسلم ممالک سے رام مندر کے لیے زیادہ چندہ آیا ۔
مسلمانوں کی جماعتیں اور ادارے کام کا طریقہ
*اہل سنت والجماعت بریلوی مکتبہ فکر 1880/1904
*علی گڑھ تحریک 1857
*دارالعلوم دیوبند 1866
*انڈین مسلم لگ 1906
*مرکزی جمعیت اہلحدیث 1906
*جمعیتہ العلماء ہند 1919
ارشد مدنی/ محمود مدنی گروپ
*امارت شرعیہ 1921
*تبلیغی جماعت 1926
دو گروپ( امارت مرکز اور شوری)
*جماعت اسلامی ہند 1948
*آل انڈیا مجلس تعمیر ملت 1950
*آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین 1928/1957
*آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت 1964
*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ 1972
*مسلم مجلس مشاورت مختلف الخیال جماعتوں کا وفاق تھا جس میں 16 تنظیمیں شامل تھیں۔آج ملت کی بے توجہی اور نظم کی کمی سے بے اثر بن کر رہ گی ہے۔جس کے ذمہ دار بھی یہی قیادت اور عوام کا آنکھ بند کر کے پیچھے چلنے اور زباں بندی کا نظام ہے ۔
مسلم تنظیموں کاStructur ڈھانچہ
80%سے ذیادہ اراکین 65سال کی عمر کے، سفر کرنا مشکل، ۔قوی مضمحل،بھاگ دوڑ کے قابل نہیں ،جدید علوم و ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدم واقفیت ۔مشاورت کا فقدان۔شفافیت کی کمی، سوال پوچھنے ہر ناراضگی اور اسے بے ادبی اور مخالفت سمجھنا ۔
اپنے بعد سیکنںڈ لائن،تھرڈ لائن کی قیادت ابھرنے ہی نہیں دی جاتی ۔اداروں ،جماعتوں میں انتخابات برائے نام صرف اعلان ۔شورائیت نہیں،باپ کے بعد بیٹا صدر نشین یا داماد سر براہ ،گدی نشین۔امارت گھر کے گھر ہی میں گھوم رہی ہے۔
ذمہ داروں کا احتساب و محاسبہ نہیں،تقدس و تنزیہ(بے عیبی)،چھوٹو ں ہر تحقیر یا تجہیل(بے خبری ،انجان بننا)۔ ہمارے ملی اداروں کا المیہ ہے کہ خود غرضی ،مفاد ہرستی،چاپلوسی،اقربا ءپروری،منصب وجاہ کا حرص ،خواہ عمر 80 ڈال قوی پر اضمحلال۔اگرکسے معزول کردیا جائے یا منصب نہ ملے تو متوازی آل انڈیا تنظیم کھڑی کر کے دو دھڑوں میں تنظیم وجماعت کی تقسیم ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔
مؤثر حکمت عملی
حالات حاضرہ میں پیدا کردہ خطرات کے مقابلے کےیے درست تجزیہ،ٹھیک مشاہدہ Precise Observation.,درست فہم ،فراست مومنانہ ،حکمت بالغہ ،سیاسی شعوراورشورائیت کی ضرورت یے۔
*اندیشوں کی زبانlanguage of apprehensions نہیں عمل کی زبان۔
*ردعمل کی زبان نہیں پیش قدمی کی زبان۔
*الزامات کی زبان blame frame نہیں بلکہ مطلوبہ نتائج کی زبان ۔
*عدل و قسط کی بنیاد پر سیاسی ایجنڈا طے کیا جائے ۔
*اپنی زبان ،عمل ،اداروں اور جماعت سے مکمل اسلام کی دعوت اور تعارف پیش کریں۔
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
رستہ یہیں سے نکلے گا
ملک کی موجودہ تشویشناک صورت حال ، شہریوں کے درمیان مساوات،تشخص اور ان کے حقوق کی حفاظت سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔
انتہا پسندانہ تحریکوں کے عروج اور عوام میں مقبولیت کا نوحہ و ماتم کرنے میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی روش ، سوچ ،اور حکمت عملی کو تبدیل کرے۔دستور میں دیے گئے حقوق کے حصول کی جدوجہد کرے۔ عدالتوں،الیکشن اور صحافت ،شوشل میڈیا کو ملی کاذ کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کریں۔
اگر اب بھی نہ جاگے تو؟
اپنے اداروں ،جماعتوں ،مسلکوں میں عصبیت کی بجائے علمی ،عملی غور وفکر اور بہتر اخترائی تجاویز کے ذریعے موجودہ بیانیے کو تبدیل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مثبت کوشش کریں۔اپںے اداروں ،جماعتی نظام اور قیادت کو بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔ضروری اصلاحات اور جدید نقطہ نظر اور گہرے تفکر و تدبر سے حکمت عملی بنائیں۔رواداری اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔دین اسلام کے لیے کی جانے والی تمام چھوٹی بڑی سرگرمی کو ملت اپنا کام سمجھے۔کھلے دل سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔جماعتی عصبیت کو ختم کیا جائے۔دارلعلوم میں دوسری جماعتوں اور مسلک کے خلاف قائم کیے گئے محاضرات اور مناظروں کے ماحول کو ختم کیا جائے ۔باطل طاقتیں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے سب کو گلے لگاتی ہیں ۔ان کی تنظیمیں ایک دوسرے کی ٹانگ نہیں کھینچتی،بلکہ سپورٹ کرتی ہے مخالفت نہیں کرتیں۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں پھر ہم کیوں نہیں بدلتے۔
ہمیں خبر ہی نہیں کون کس لبادے میں
فساد و فتنہ کی فصلیں اگا رہا ہے یہاں
ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910