آج میرے دل میں ایک ایسا جذبہ ہے جو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ۔ جب ہم اپنے ملک کی آزادی کے جشن میں شریک ہوتے ہیں ، تو دل میں فخر کے ساتھ ساتھ ایک سنجیدہ احساس بھی اُبھر کر آتا ہے کہ آزادی محض ایک نعمت نہیں بلکہ ایک فرض ہے ، ایک عزم ہے ، ایک ذمہ داری ہے ۔ آج میں آپ غیور اور دانشور حضرات کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم سب مل کر وطن کی خدمت کا وعدہ دہرائیں ۔
آزادی خدا کی دی ہوئی سب سے بڑی نعمت :
آزادی انسان کا فطری حق ہے ۔ انسان اپنے خالق حقیقی کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کر سکتا ۔ یہ فطرت کے خلاف ہے کہ کوئی انسان دوسرے کی بندگی کرے ۔ اللہ تعالٰی کی بندگی کرنے والا بندہ کبھی بھی کم تر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ اس کی سب سے بڑی شان ہے ، کیونکہ اللہ تعالٰی سب سے بڑا مالک ، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ، اور سب سے طاقتور ہے ۔ وہی رزق دیتا ہے ، عزت دیتا ہے ، وہی ذلت دیتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے ۔ لیکن جب کوئی انسان اپنی دولت ، جاہ و جلال کی بنیاد پر دوسروں کو غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے ، تو یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ تاریخ اس بات کی زندہ مثال ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران چاہے دنیا کو اپنے قدموں تلے روند ڈالیں ، آخرکار ناکام ہو گئے اور اپنی ذات کی بدنامی میں ڈوب گئے ۔
انگریزوں کا ظلم اور ہمارے
مجاہدین کی قربانیاں :
تقریباً ڈھائی صدی قبل ہندوستان پر انگریزوں نے ایسا تسلط قائم کیا کہ پورا ملک ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر آ گیا ۔ 1750ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ نے پہچان لیا کہ انگریز یہاں تجارت کے لیے نہیں بلکہ غلامی کے لیے آئے ہیں ۔ اس شناخت نے پورے ملک میں آزادی کی تحریکوں کو جنم دیا ۔ عوامی احتجاجات ، جنگلات ، اور خون کی ندیاں بہیں ۔ لاکھوں بے گناہ شہری شہید ہوئے ، ہزاروں علمائے کرام کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ، لیکن انگریزوں کا ظلم کم نہ ہوا ۔ آزادی کی جنگ میں ہر مذہب اور قومیت کے لوگ شامل تھے ، مگر مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ۔ مسلمانوں کے علمائے کرام اور مجاہدین نے نہ صرف اپنے خون سے ملک کو آزاد کروایا بلکہ ایک ایسے وطن کی بنیاد رکھی جہاں ہر انسان کو عزت اور آزادی حاصل ہو ۔ اس بات کی تصدیق برطانوی تاریخ دان بھی کرتے ہیں ۔
آزادی کے بعد کی سازشیں اور چیلنجز :
1947 میں ملک آزاد ہوا ، مگر دشمن اور غدار نہ گئے ۔ انہوں نے ملک کے اندر نفرت ، تعصب ، اور فرقہ واریت کے بیج بوئے ۔ آج بھی اسی نفرت کی جڑیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔ جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں ، وہ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا ہے کہ ہمارا ہندوستان سب کا ہے ، اور جمہوریت اس ملک کی جان ہے ۔
موجودہ حالات اور ہمارا کردار :
آج ملک پر ایسے لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جو جمہوریت کو کمزور کرنے ، آئین میں تبدیلی کرنے اور اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن ہمیں گھبرانا نہیں ہے ۔ ہمارا ایمان اور ہمارا اتحاد ہی ہماری طاقت ہے ۔ عقل مند ہندو ، انصاف پسند عیسائی ، امن کے خواہشمند مسلمان اور اتحاد کے علمبردار سکھ سب مل کر اس ملک کی حفاظت کریں گے ۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے فرائض کو بہتر انداز میں ادا کرنا ہوگا ۔ اپنی ثقافت ، مذہب ، اور تہذیب کا تحفظ کرتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا ۔
محبت وطن کی حقیقت :
حب وطن صرف نعروں یا تقریروں کا موضوع نہیں بلکہ عملی زندگی کا حصہ ہے ۔ اگر دلوں میں واقعی حب وطن ہے تو ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ، ایک دوسرے کے لیے محبت اور بھائی چارہ بڑھانا ہوگا ۔ یہ ملک صرف چند افراد کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی ترقی ، سلامتی اور خوشحالی کے لیے متحد رہیں ۔
اختتامیہ :
آج جب ہم آزادی کے سترہویں سال کا جشن منا رہے ہیں ، ہمیں یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے وطن کی خدمت میں ہر مشکل اور آزمائش کا مقابلہ کریں گے ۔ ہمیں اپنی نسلوں کو ایک ایسا وطن دینا ہوگا جہاں سب امن اور مساوات کے ساتھ رہ سکیں ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے وطن سے محبت ، اتحاد اور بھائی چارے کا جذبہ عطا فرمائے ۔ ( آمین )
از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : الفیض ماڈل اکیڈمی بابوآن بسمتیہ ارریہ بہار
رابطہ نمبر : 8429816993