ہم آزاد ہیں ؟

ہمارا ملک، ہمارا دستور اور ہمارے اصول ہمیں آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ سوال آج ہر اس باشعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے جو آئین کے اوراق کو پڑھتا ہے اور پھر اپنے ارد گرد کے حالات پر نظر ڈالتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین میں لکھی ہوئی آزادی اور روزمرہ کی زندگی میں درپیش حقیقتوں کے درمیان ایک گہری اور وسیع خلیج ہے۔
ہمارا دستور کہتا ہے "ہم آزاد ہیں” اور دفعہ 14 کی روشنی میں ہر شہری کو مساوات کا حق حاصل ہے۔ لیکن جب ایک اسکول میں ایک اقلیتی طالب علم کو صرف اس کی شناخت کی بنا پر پانی پینے کی پاداش میں زد و کوب کیا جاتا ہے اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو یہ مساوات کی ضمانت ایک تلخ مذاق بن کر رہ جاتی ہے۔
ہمارا دستور یہ بھی کہتا ہے کہ دفعہ 15 کے تحت مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کی ممانعت ہے۔ لیکن جب اقتدار کے ایوانوں سے یہ آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ لوگوں کو ان کے لباس سے پہچان کر ہلاک کر دیا جائے تو یہ دفعہ بے معنی ہو جاتی ہے۔ جب مذہب کی بنیاد پر رہائش سے روکا جاتا ہے ۔ جب مذہبی مقامات کو مسمار کیا جاتا ہے اور مندروں کی تعمیر کے لیے مسجدوں کو گرا دیا جاتا ہے تو پھر آزادی کا یہ نعرہ” ہم آزاد ہیں” کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔
ہمارا دستور ہمیں یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ "ہم آزاد ہیں” اور دفعہ 16 ہر شہری کو سرکاری ملازمتوں میں مساوی مواقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ویسٹ بنگال میں سرکاری طبی شعبے میں اقلیتوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہے اور جب مرکزی وزیر کیشان ریڈی بی سی کوٹے سے مسلمانوں کو خارج کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں، "ہم آزاد ہیں”۔
دفعہ 25 اور 26 ہمیں مذہبی آزادی اور مذہبی ادارے قائم کرنے کا حق دیتے ہیں۔ مگر جب وقف بل امینڈمینٹ اور بین المذہبی اجلاس جیسے اقدامات مذہبی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ آئینی دفعات محض کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ ہیں؟
دفعہ 29 اقلیتوں کو اپنی ثقافت اور تعلیمی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن جب مخصوص مذہب کے اسکولوں پر ہندو نعروں کو جبری طور پر مسلط کیا جاتا ہے۔ مہابھارت اور رامائن جیسی کتابوں کو نصاب میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اقلیتی اداروں کو الزامات لگا کر بند کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ سب کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو دستور سے خوب واقف ہیں۔
اس سب کے باوجود ہم آزاد ہیں۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس میں ایک طرف آئین کی عظمت کا اعتراف ہے تو دوسری طرف ان تلخ حقائق کا طنز بھی ہے جو آئین کے وعدوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ آزادی صرف قانون کی کتابوں میں درج ہونے کا نام نہیں بلکہ اس کا حقیقی اظہار ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہوتا ہے۔ جب تک ہر شہری بلا خوف و خطر اپنی آزادی اور اپنے حقوق کا استعمال نہیں کر پاتا اس وقت تک ہم مکمل طور پر آزاد نہیں کہلا سکتے۔

تحریر : خان شبنم فاروق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے