ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
سرزمین ہند ہر دور میں علمی اعتبار سے سرسبز و شاداب اور زرخیز رہی ہے، اس نے ہر فن کے ماہرین کو جنم دی ہے، موجودہ دور میں تین علمی دانش گاہیں پوری دنیا میں معروف و مشہور ہیں ہر ایک کا اپنے اپنے میدان میں نمایاں کارنامے ہیں انہیں میں ایک "جامعہ مظاہر علوم سہارنپور” ہے، یہاں کے تین اساتذہ حدیث عالمی طور پر شہرت یافتہ ہوئے ہیں۔
(1)حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ صاحب "بذل المجہود فی حل سنن ابی داوُد”
(2) شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب "اوجزالمسالک الی مؤطا مالک”
(3)شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ صاحب "نبراس السارى فی ریاض البخاری”
اس وقت فدوی کے سامنے آخر الذکر کی مجالس سے متعلق ایک کتاب بنام "مجالس محدث العصر” ہے۔
الحمد للہ! کاتب السطور از ابتدا تا انتہا مکمل مطالعہ کیا ہے، یہ کتاب لعل و گہر کا خزانہ ہے، اس کے مرتب ملک کے عظیم دینی درسگاہ مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مایہ ناز سپوت اور استاذ حدیث و تفسیر حضرت مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی دامت برکاتہم ہیں، آں موصوف کی شخصیت اس وقت اہل علم کے درمیان محتاج تعارف نہیں ہے، آپ کے گوہر بار قلم سے اب تک عربی و اردو میں ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آکر داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں۔
مولانا محترم! اس سے پہلے بھی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی نور اللہ مرقدہ (سابق صدر:آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) کی مجالس "مجالس حسنہ” کے نام سے ترتیب دے کر شائع کرچکے ہیں، اس لئے آپ جمع و ترتیب میں بھی اچھا تجربہ رکھتے ہیں، اسی کا اثر ہے کہ اس کتاب کی ترتیب "مجالس حسنہ” سے الگ اور عمدہ ہے۔
اس کتاب کی ترتیب بالکل عرب دنیا سے شائع ہونے والی کتاب جیسی ہے، جس طرح وہاں بعض کتابچے بھی حاشیہ و فہرست کتب اور انڈکس سے "کتاب” بن جاتی ہے، یہ طریقہ ہمارے دیار میں عربی کتب میں بھی رائج نہیں ہے چہ جائیکہ اردو میں اس کو اختیار کیا جائے۔
ایک مرتبہ کاتب السطور سلطان العلماء حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری قدس سرہٗ (سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین:مادر علمی دارالعلوم دیوبند) کی مجلس میں بیٹھا تھا، عرب دنیا سے شائع ہونے والی کتابوں کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی تو حضرت رح نے فرمایا:
ایک مرتبہ مولانا تقی الدین ندوی صاحب(حال:معتمد تعلیم:دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) نے مجھ سے کہا کہ آپ کی حجۃ اللہ البالغہ پر جو تحقیق ہے اگر اس پر حاشیہ لگادیں تو اسے عرب دنیا سے شائع کروادوں گا، میں نے انکار کر دیا حاشیہ کی صورت میں کبھی اوپر اور کبھی نیچے دیکھنا ہوتا ہے اور اس سے مطالعہ میں خلل ہوتا ہے۔
یہ حضرت مفتی صاحب رح کا اپنا نظریہ ہے، لیکن کتابوں پر حاشیہ کا ہونا بہت ہی فائدہ مند اور سود مند ہے۔
حضرت مولانا فیصل احمد ندوی صاحب دامت برکاتہم اس سے پہلے بھی دوکتابیں (1)”مجالس حسنہ "(مجالس مفکر اسلام رح)اور (2) ” مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں "(مرتب:حضرت مولانا محمد عمران خان ندوی رح)اسی نہج پر شائع کرچکے ہیں اور اہل علم کے درمیان ان کے اس کارنامے کی خوب پزیرائی ہوئی ہے۔
اس کتاب میں حاشیہ کا نہج سب سے انوکھا اور نرالا ہے وہ اس طرح کہ اس میں مکمل ایک مجلس ہے، اور اہم باتوں پر صرف نمبر ڈالا گیا ہے، پھر ہر مجلس کے بعد مکمل نمبر وار حاشیہ ہے،اس طرح کے حاشیہ میں مطالعہ کا تسلسل ختم نہیں ہوتا ہے، یہ طریقہ اگر حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب قدس سرہٗ دیکھتے تو اس کو ضرور سراہتے۔
یہ کتاب پانچ سو بیس(520) صفحات پر مشتمل ہے، اس میں شیخ الحدیث حضرت مولانا یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ کی مجالس تقریباً ایک سو نواسی صفحات (189) پر اکیاون مجالس ہیں، اور حاشیہ تقریباً دو سو دس صفحات (210)پر،اور فہرست مضامین وکتب اور انڈکس پچانوے صفحات (95)پر،جب کہ مقدمہ و تعارف شیخ و تعلقات شیخ چھبیس صفحات (26)پر پھیلی ہوئی ہے۔
اس کے طابع و ناشر "ادارۂ احیاء علم و دعوت لکھنؤ” اور تقسیم کار "مکتبۃ الشباب العلمیہ لکھنؤ ہے۔اس کتاب میں کیا ہے مرتب خود لکھتے ہیں:
مجالس محدث العصر، یعنی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کی پچاس سے زائد مجالس کا مجموعہ، جو علم حدیث سے متعلق بیش بہا معلومات، اصلاح و تربیت کے سلسلے میں گراں قدر ہدایات، دسیوں علمی افادات اور قیمتی ملفوظات پر مشتمل ہے۔
کتاب پر مقدمہ ملک کے نامور محقق حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم کا ہے جو ہے تو مختصر لیکن بہت ہی اہم اور علمی معلومات سے پر ہے، ملفوظات و مجالس کی تاریخ پر کلام کرتے ہوئے اس کی ابتدا اور یہ کن کا فیض ہے اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
یہ سلسلہ ملفوظات علماء ومشائخ عجم کا وہ خاص تحفہ ہے جس کے اہل عرب ذوق آشنا اور جرعہ نوش نہیں ہیں، لیکن عجم میں افغانستان، ایران اور ہند پاکستان میں اس کا معمول اور متواتر روایات تقریباً آٹھویں صدی ہجری سے چلی آرہی ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ پر اب تک کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں ان تمام میں سب سے بہتر اور نفع بخش یہی کتاب ہے،اس مجموعہ کی تعریف کرتے ہوئے مقدمہ نگار لکھتے ہیں:
یہ مجموعہ جو حضرت مولانا (محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ) پر شائع کتابوں میں غالباً سب سے مؤثر اور مفید ہے۔
آگے مرتب کے اس کاز کو سراہتے ہوئے لکھتے ہیں:
مولانا فیصل صاحب نے اس کے حواشی اور حوالہ جات کی جستجو میں بے حد محنت کی ہے اور اس میں کثیر علمی فوائد، حوالے اور معلوم
ات یکجا کر دی ہیں، اگر چ
ہ ان سے پڑھنے والوں کو بھی یقیناً فائدہ ہوگا اور دیر تک ان سے استفادہ کریں گے، لیکن میرے ناچیز (حضرت مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب دامت برکاتھم) خیال میں اس قدر محنت اور مغز پاشی کسی بڑے علمی کام کے لئے ہوتی تو کیا کہنے!۔
بہرحال، یہ ایک مبارک اور قابل تحسین کوشش ہے جس کا تہہ دل سے استقبال کیا جانا چاہیے اور اس سے بھر پور علمی، روحانی استفادہ بھی ہونا چاہیے۔
مولانا محترم کا یہ لکھنا کہ "اس قدر محنت اور مغز پاشی کسی بڑے علمی کام کے لئے ہوتی تو کیا کہنے!” درست ہے تاہم حضرت مولانا فیصل احمد ندوی صاحب دامت برکاتہم کے لئے اب اس طرح کتابوں پر حاشیہ لگانا دشوار نہیں ہے کیونکہ حضرت مولانا ندوی صاحب دامت برکاتہم اس سے پہلے دو کتابوں پر((1)”مجالس حسنہ ” (2)” مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ") اسی طرح کام کر چکے ہیں۔
اس کتاب میں جمع کردہ مجالس دیگر علماء کرام کی مجالس و مواعظ و ملفوظات کی طرح محفوظ نہیں کی گئی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں رائج ہے، پہلے تو گفتگو کے وقت ہی لکھ لیا جاتا تھا، یا اشارے کے طور پر نوٹ کرلیا جاتا تھا، لیکن موجودہ دور میں جدید ٹکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے ہر اہم گفتگو کو”ریکارڈ” کرلی جاتی ہے، پھر اس کو قرطاس پر الفاظ کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔
مرتب نے ان مجالس کو دو طرح سے محفوظ کی ہےاکثر و بیشتر محفوظ بالمعنی اور بعض محفوظ بالالفاظ ہیں،(حدیث نبوی ﷺ کے اصطلاح میں "روایت بالمعنی اور روایت بالالفاظ” ہے، وہیں سے محفوظ بالالفاظ اور بالمعنی ہے)جیسا کہ حضرت مولانا فیصل صاحب ندوی دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔ غور سے ان باتوں کو سنتے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے، پھر مجلس ختم ہونے کے بعد اگر موقع ہوتا تو اسی وقت لکھ لیتے ورنہ بعد میں حسب فرصت لکھتے، یا واپسی میں ٹرین پر یا لکھنؤ آنے کے بعد پہلی فرصت میں لکھ کر فارغ ہوتے۔
مرتب کا کتاب میں ایک نہایت ہی اہم کام یہ ہے کہ جہاں کہیں حضرت شیخ الحدیث رح سے تسامح ہوا ہے وہاں بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ اس کی درست نشاندہی کی ہے، مولانا ندوی دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
اگر کوئی علمی یا تاریخی بات بیان کرنے میں شیخ سے تسامح ہوا ہے تو ہم نے مصادر کی روشنی میں ان کی توضیح کی ہے۔
اس سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ فرمائیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ نے فرمایا:
قدیم علماء احناف میں بہتوں کے یہاں اعتزال پایا جاتا ہے، جصاص رازی، عمر نسفی سب معتزلی تھے۔
اس پر حضرت مولانا ندوی صاحب دامت برکاتہم حاشیہ میں لکھتے ہیں:
جصاص رازی کے علم و فضل اور زہد و عبادت کا ذکر کرنے کے بعد امام ذہبی رح لکھتے ہیں:وقيل:كان يميل إلى الاعتزال۔
لیکن عمر نسفی کے بارے میں اس طرح کی بات ان کے تذکرے میں کہیں نظر نہیں آئی، معلوم نہیں کہ شیخ کس بنیاد پر ان کی طرف اعتزال کی نسبت کررہے ہیں، اگر ان میں اعتزال ہوتا تو ان کی عقائد کی کتاب میں یہ نمایاں ہوتا جبکہ ان کی یہ کتاب سینکڑوں سال سے نصاب کا حصہ ہے اور کسی کو اس میں اعتزال نظر نہیں آیا! والله اعلم۔
موجودہ دور میں کئی اکابرین کی مجالس و ملفوظات کتابی شکل میں ہیں لیکن ان کتابوں میں بے شمار تسامحات ہیں، مرتب حرف بحرف ملفوظات کو جمع کر دیتے ہیں، مولانا ندوی صاحب دامت برکاتہم کا یہ عمل ان لوگوں کے لئے ایک نمونہ اور آئیڈیل ہے۔
کتاب ظاہر و باطن ہر اعتبار سے عمدہ ہے مجالس جلی حروف میں اور حاشیے باریک حروف میں ہیں، چند جگہ ٹائیپنگ میں غلطی ہے۔
علم حدیث سے شغف رکھنے والے طالبان علوم نبوت واساتذہ حدیث کے لئے یہ ایک بیش بہا نعمت عظمی ہے، ہم اس کتاب کے بارے میں قارئین سےیہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کی فہرست پر نظر ڈالے بغیر کتاب کا مطالعہ شروع کردیجئے گا ورنہ فہرست کا ہر عنوان تقاضہ کرے گا کہ پہلے مجھے پڑھ لیجئے پھر تو آپ کتاب کو ترتیب سے نہیں پڑھ سکیں گے۔
اللہ تعالی مرتب کے اس کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے، اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری نوراللہ مرقدہ کے لئے اس کو بلندی درجات کا سبب بنائے۔ (آمین)