8 لاکھ مرتدد لڑکیوں کا سچ!!!

ازقلم : مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک
9986437327

شیموگہ:(خصوصی رپورٹ مدثراحمد ):۔پچھلے کچھ دنوں سےسوشیل میڈیا پر بھارت کے معروف عالمِ دین مولانا سجاد نعمانی کی تقریر کا ایک ٹکڑا بڑی ہی تیزی کے ساتھ گردش کررہا ہےاوراس تقریر میں مولانا سجاد نعمانی نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ پچھلے ایک سال میں 8 لاکھ مسلم لڑکیا ں مرتد ہوئی ہیں اورمسلمان خاموش بے بس بیٹھے ہوئے ہیں انہیں اپنی بچیوں کے ارتدادکی کوئی فکر نہیں ہے۔ مولانا نے کہا کہ کیا مسلمانوں کو اب بھی ساٹھ ، ستر سال غفلت کی نیند سونے کی ضرورت ہے؟۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے تمام رجسٹرار آف میریج کے دفاتر سے ہم نے وہاں کے نوٹس بورڈ کا سروے کروایا ہے جس کے بعد یہ سامنے آئی ہے کہ بھارت کی 8 لاکھ مسلم لڑکیاں 1 سال میں مرتد ہوئی ہیں اوروہ ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی رچا چکی ہیں۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ، محض جمعہ کی نماز اداکرلینے سے پکے مسلمان نہیں بن سکتے۔ مولانا سجاد نعمانی جو نہایت ذمہ دار اورقائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں انہوں نے مسلمانوں کی رہنمائی میں کبھی بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ ہمیشہ انکے ولولہ خیز تقریریں اورجذباتی لہجے نے مسلمانوں میں ایک نئی امنگ پیدا کی ہے۔ نہ امیدی کے اس دور میں امید کی ایک کرن مولانا سجاد نعمانی کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس مضمون کولکھنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ مولانا سجاد نعمانی نے اپنی تقریر میں جو کہا ہے کہ بھارت کی 8 لاکھ مسلم لڑکیاں پچھلے 1 سال میں مرتدہوئی ہیں تو یہ بات کچھ ہضم نہیں ہورہی ہیں۔ کیونکہ اس وقت بھارت کے کسی بھی میریج رجسٹرار دفتر میں آرٹی آئی کے ذریعہ سے بھی آپ، میں یا سپریم کورٹ کا وکیل بھی یہ پوچھے گا کہ کتنی مسلم لڑکیاں ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہوئی ہیں؟۔ تو یہ جواب آرٹی آئی کے ذریعہ سے بھی ملنا مشکل ہے۔ البتہ اسپیشل میریج ایکٹ جس میں ایک مذہب کے لڑکا یا لڑکی دوسرے مذہب کے لڑکا یا لڑکی سے شادی کرتے ہیں تو اسکے اعدادوشمارات آپ کو مل سکتے ہیں، مگر مخصوص مذہب، نام کی تفصیل آپ کو نہیں مل سکتی ۔ جس ریاست میں ہمارا قیام ہے اسی ریاست کے رجسٹرار دفتروں سے ہم نے کچھ سال قبل اسی طرح کی معلومات آرٹی آئی کے ذریعہ سے طلب کی تھی جس میں اس بات کا خلاصہ دیا گیاتھاکہ مخصوص مذہب اورذات کے لوگوں کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا جاسکتا، البتہ کتنی شادیاں ہوئی ہیں وہ نمبرات دیئے جاسکتے ہیں۔ باوجود اسکے جس ضلع میں ہمارا قیام ہے وہاں پر شدید جدوجہد کے بعد یہ تفصیلات حاصل کی گئیں تھیں کہ سال 2018 میں جملہ 55 مسلم لڑکیوں اورمسلم لڑکوں کی شادیاں غیر مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان میں 6 معاملات ایسے تھے جس میں مسلم لڑکیاں شادی کے بعد اپنے شوہروں کو بھی دائرے اسلام میں لاکر انہیں اسلامی طرزِ زندگی سے جینے کیلئے تیار کیاتھا۔ کرناٹک کے ہی ایک سینئر آئی اے ایس آفیسرہیں جو ایک مسلم لڑکی کے ساتھ شادی کئے ہوئے ہیں۔ اسپیشل میریج ایکٹ کے مطابق اس آئی اے ایس آفیسر نے نکاح بھی کیا اپنا نام بھی تبدیل کروایا اور زندگی بھی اسلامی اعتبار سے گذارنے کی پہل کی ہے لیکن انکا نام اب بھی غیر مسلم ہی ہے۔ ایسے معاملات بھی معاشرے میں بہت ہیں ، لیکن ان تمام معاملات کو مرتدد کہنا درست نہیں ہے۔ ہم مولانا سجاد نعمانی کی اس بات پر بھی باریکی سے جائزہ لیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کچھ ایمانی جذبہ رکھنے والے لوگوں کا ساتھ لیتے ہوئے پورے بھارت کے رجسٹریشن آف میر یج کا معائنہ کرتے ہوئے وہاں موجود نوٹس بورڈ پرسے تفصیلات اکٹھا کروائیں اورپورے ملک کی نوٹس بورڈ کی تفصیلات میں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں کی شادی کی تفصیلات اکٹھا کرنے پر یہ بات سامنے آئی تھی، 8 لاکھ مسلم لڑکیاں ہندو ، یا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کی ہوئی ہیں۔ بھارت میں جملہ 28 ریاستیں ہیں، 748 اضلاع ہیں ان میں سے 5650 تعلقہ جات ہیں اس لحاظ سے کم وبیش 5 ہزار سے زیادہ میریج رجسٹریشن آفیس بھارت میں موجود ہیں۔ ان تمام آفیس کے نوٹس بورڈ کا معائنہ کرنا کیسے ممکن ہے؟۔ اگر آرٹی آئی درج کی جاتی ہے تو آرٹی آئی میں یہ تفصیلات نہیں مل سکتی اوراگر اعداد وشمار مل بھی جاتے ہیں تو اس بات کی وضاحت نہیں ہوپائی گی کہ مسلم لڑکیاں، عیسائی لڑکیاں، پارسی لڑکیاں، یاپھر سکھ لڑکیاں، ہندو لڑکوں سے شادی کی ہوئی ہیں، کیونکہ ان تمام لڑکیوں کی شادی بھی اسپیشل میریج ایکٹ میں ہی شامل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے کئی اوبی سی ذاتیں بھی ہیں جو دوسری ذات کے ساتھ شادی ہوتی ہیں تو اسے بھی اسپیشل میریج ایکٹ میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ اس مضمون کو پیش کرنا مولانا سجاد نعمانی کے علم کے حوالے سے سوال اٹھانا نہیں ہے۔ بلکہ اس تقریر کے ٹکڑے کے بعد جو دانشمند اورباشعور اہل علم افراد میں جو افراتفری کا ماحول پیدا ہوا ہے اسے صحیح رخ دینا ہے اوراضطراب کو کم کرناہے۔ یقیناً مسلم لڑکیوں کی بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہے اورمسلم لڑکیاں تیزی کے ساتھ غیر مسلم لڑکوں کے جال میں پھنستی جارہی ہیں۔ سوشیل میڈیا پر مرتدد کے معاملات کی وقتاً فوقتاً خبریں آتی ہیں۔ 3سال پہلے ایسا ہی ایک میسج ہمارے موبائل پر آیا تھا جس میں حیدرآباد، کوئمبتور ، تیروچھی، سیلم اور مدھورائی کا تذکرہ کرتےہوئے 20 ہزار مسلم لڑکیوں کے مرتد ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ بے شک اس پُرفتن دور میں جہاں شادی شدہ افراد ہی مستحکم نہیں ہیں ، جانے انجانے میں عشق ومعشوقی کی غلطیاں کربیٹھتے ہیں اورناجائز رشتوں کو اُبال دے کر اسے ہی زندگی مانتے ہیں۔ ایسے میں نوجوان لڑکیاں سماجی ومسلم معاشرا تی خامیوں کی وجہ سے مرتد ہونے سے نہیں پیچھے ہٹتی، لیکن سماج کے ذمہ دار جس میں علماء ، قلمکار، بھی اہم کردار اداکرتے ہیں، انکی طرف سے مستقل جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج 8 لاکھ مرتد ہونے کی ویڈیو خوب وائرل کی جارہی ہے وہیں مولانا سجاد نعمانی نے وہیں کردارسازی، قیادت ، اصلاح معاشرہ ، سیاست ، معیشت اقتصادیت ، حکمت کے تعلق سے بھی درجنوں تقرریں کی ہیں اسکی ویڈیو ، تقریروںکے حصے ہمارا سماج کیوں نہیں وائر ل کرتا، کیوں نہیں اسے اپنی زندگیوں میں اپنانے کی کوشش کرتاہے؟۔ کیوں لغوسنسنی خیز، دھماکہ خیز، جذباتی وفحاشی پر مبنی پیغامات کی تشہیر کرنے پر تُلا ہواہے۔ اس وقت ملت کو جذبات کی رو میں ڈھالنے کے بجائے لائحہ عمل یعنی ایکزیکٹیو پلان پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ نکاح آسان ہواس پر سینکڑوں تقریریں، جلسہ، سمینارمنعقد ہوچکے ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جتنی بڑی شادی ہوتی ہے اتنے بڑی عالم کی موجودگی میں اس شادی کا شرف ماناجاتا ہےاورمولانا دلی سے ہی آئے اورنکاح پڑھایا جائے، جب ایسی سوچ وفکر کے لوگ ہمارے درمیان ہیں تو ارتداد کے امکانات زیادہ ہی ہونگے۔ کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جس کیلئے شادی ہونا ہی مرتد کی وجہ نہیں بنتی بلکہ بے پردگی ، بے حیائی، بولڈنیس اور محرم نامحرم کے درمیانی پردے جب ہٹ جاتے ہیں تب بھی ارتداد کے خدشات زیادہ ہوجاتے ہیں۔ 8 لاکھ لڑکیوں کا ارتداد بڑا مسئلہ ضرور ہے لیکن 8 لاکھ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے احتیاط بھی ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے