از: محمد عمر کاماریڈی
مدیر: التذکیر فاؤنڈیشن کاماریڈی
”حجاب“ صرف اسلامی شعار اور مذہبی فریضہ ہی نہیں؛ بلکہ عزت و ناموس کا محافظ، تحفظِ شرم و حیا کا ضامن، فطرتِ نسواں کا مقتضی، انسدادِ فواحش کا باعث، پاک باز اور عزت مآب خواتین کا وقار اور انتخاب، بےحیائی و بدکاری کے روک تھام کا مؤثر ذریعہ، جوہرِ عفت وعصمت کا پاسباں، بد قماش اور شرپسند بھیڑیوں اور ہوس پرستوں سے ڈھال اور سپر، اور پاک دامن و بدکردار کے مابین حد فاصل ہے ؛مختصر یہ کہ "حجاب” فطرتِ نسوانی اور رمزِ مسلمانی ہے، تہذیب و شائستگی کی بنیاد اور عظمت کی نشانی ہے؛ کیوں کہ
اسلام میں ہر طرح بجا ہے پردہ
نسواں کے لیے حسن وحیا ہے پردہ
پردے کی حقیقت میں وہ عظمت ہے رفیقؔ
خالق نے بھی خلقت سے کیا ہے پردہ
اسلام میں حجاب کا مقام اور مقصد!
اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اس لیے اس کا ہر حکم مزاجِ بشری کے عین مطابق ہے؛ چناں چہ پردہ اور حجاب نسوانی حق اور فطرت کا مقتضی ہے، اور حجاب کا مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے نہ کہ قید کرنا؛ یہی وجہ ہے کہ جذبات واحساسات اور اخلاق و کردار کو آوارگی سے بچائے رکھنے، تہذیب وتمدن کو زوال و سقوط سے محفوظ رکھنے، معاشرتی برائیوں کا سدباب کرنے، اور خانگی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے میں حجاب کا اہم کردار رہا ہے؛ چناں چہ ۵ھ میں حجاب کی فرضیت کا حکم نازل ہوا، اور قرآن کریم کی سات آیات اور محسن انسانیت ﷺ کی ستر سے زائد روایات حجاب کے سلسلہ میں موجود ہے جو بالکل صاف الفاظ میں ”حجاب کی اہمیت و فرضیت“ پر دال ہے، عقل اور قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو شئی جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کو اتنا ہی چھپا کر رکھنا چاہیے، نہ کہ انہیں سڑکوں پر برسرعام نکالا جائے، اور لوگ اس سے مستفید ہو، اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی انفرادی نماز تک میں ستر اور حجاب کی ہیئتوں کو تجویز کیا ہے، اور اجتماعی نماز کے بہ نسبت انفرادی نماز کو ترجیح دی ہے، اور یہ سب صرف جوہرِ عفت کے تحفظ کی خاطر ہے؛ کیوں کہ ”نیک عورت کی پہچان اہلِ حقیقت کی نگاہ میں یہ ہے کہ خوفِ خدا اس کا حسن وجمال ہو، قناعت اس کی دولت ہو، عفت وعصمت اور تہمتوں سے اجتناب اس کا جوہر و زیور ہو“۔( تنویر الاذہان من تفسیر روح القرآن)
ہندو دھرم میں حجاب کا تصور!
حجاب کا یہ تصور صرف اسلام ہی میں نہیں ہے؛ بلکہ ہندو دھرم میں بھی حجاب کا تصور پایا جاتا ہے، ان کی مذہبی کتب اور جوتشیوں کی زندگی سے واضح ثبوت ملتا ہے؛ چناں چہ مہابھارت میں لکھا ہے کہ ارجن کی بیوی ”دریدی“ ایک مقام پر کہتی ہیں: ”اے بزرگو! راجہ نے مجھے سوئمبر کے موقع پر دیکھا تھا، اس سے پہلے کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا، آج بدقسمتی سے غیر مردوں کے سامنے آنا پڑا، اجنبی لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں، اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہوگی کہ مجھ جیسی پاک دامن خاتون لوگوں کے روبرو آئے، ہزار افسوس کہ راجہ دھرم کھو بیٹھے، ہم تو سنتے آئے تھے کہ قدیم زمانہ کے شرفاء اپنی منکوحہ کو کبھی بھی مجمع میں نہیں لے جاتے تھے؛ افسوس کہ اب اس خاندان کا دھرم جاتا رہا“. (مہابھارت سنھا پرب ادھیا ۶۹)
عام زندگی کے علاوہ خاص مواقع مثلاً سفر میں اور جشن و خوشی کے پروگراموں میں بھی حجاب اور پردہ کا اہتمام کیا جاتا تھا، جیسا کہ ”سری کرشن کے ماموں کنشن متھرا کے راجہ نے جب کشتی کا دنگل قائم کیا تو مستورات کے دیکھنے کے لئے خاص مکانات بنوائے تھے، وہ اتنی بلندی پر تھے کہ راجہ ہنس اڑتے ہوئے نظر آتے تھے ان پر باریک جالی لگائی گئی تھی، جہاں سے خواتین تماشہ دیکھتی تھیں“۔ (مہا بھارت ، وشوپرب ادھیائے ۱۹)
اس سے بالکل واضح پتہ چلتا ہے کہ ہندو دھرم میں بھی حجاب کا رواج تھا، اس کی ایک اور مزید دلیل یہ کہ ”ہرش چریتم میں لکھا ہے کہ جب سے شریف اور خاندانی عورتوں کے چہروں پرنقاب کی جالی نہ رہی ان کی شرم وحیاجاتی رہی“. (ہرش اجھورس۔۲)
گویا حجاب عزت و آبرو اور شرم و حیا کی بقا کا ضامن ہے۔
فرقہ پرستوں کی سازش !
مسئلۂ حجاب کا تنازعی اور تعصبی شکل اختیار کرجانا یہ کوئی اتفاقی بات اور حقیقی اختلاف نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو فرقہ پرست طاقتوں کی سونچی سمجھی سازش اور مفاد پرستوں کی سیاست ہے؛ کیوں کہ انہیں نہ تو زعفرانی رومال سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی حجاب سے کوئی سروکار؛ بلکہ ان کا مقصد اور مدعا صرف اپنے سیاسی مفاد کے لیے ہندو مسلم کو لڑا کر اپنی کرسی کو بچانا اور حکومت کرنا ہے، ملک میں زہریلی ہوا چلانا اور نفرت کی فضا پھیلانا ان کا خاص مشغلہ ہے، ملک کو تباہ وبرباد کرنا، اس سونے کی چڑیا کو مٹی کی گڑیا بنانا، جمہوریت اور سیکولرازم کا خون کرنا، عوام کو لڑا کر اصل مقصد سے توجہ ہٹانا ہے؛ کیوں کہ اب تو الکشن کا زمانہ ہے اور اپنی کرسی حاصل کرنے اور سب کا ووٹ وصول کرنے کے لئے عوام کے سامنے گزشتہ سالوں میں کیے گئے کارنامے اور خدمات پیش کرنا پڑتا ہے؛ تا کہ عوام ان کارناموں پر اعتماد کرکے اپنا قیمتی ووٹ دے سکے؛ لیکن موجودہ سرکار کے پاس ایسے کارناموں کے بجائے صرف کالے کرتوتوں کی بہتات ہے تو اس سے بچنے کے لئے عوام کو الجھانے اور ہندو مسلم کو لڑانے کے لئے حجاب کا مسئلہ اٹھایا گیا؛ ورنہ تو یہ کوئی اختلافی مسٔلہ ہے ہی نہیں، اور ان کا اصل ٹارگٹ تو اسلام اور اہلِ اسلام کو اس ملک سے ختم کرنا ہے جیسا کہ موجودہ صورت حال اورbjp کے بعض نیتاوں کی زہریلی زبانیں اس جانب مشیر ہے؛ لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے جو شرمندہ تعبیر ہونے سے رہ جائے گا؛ کیوں کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
کرنے کے اہم کام:
(۱) اسلام کی مکمل تابع داری: اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات کا نام ہے، زندگی کے ہر شعبے میں اس کی روشن تعلیمات موجود ہے؛ لہذا ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو پڑھیں، منشأ شریعت کو سمجھیں، مکمل طور پر عملی زندگی میں داخل کریں، اعتقادات ہو کہ عبادات، معاملات ہو کہ معاشرت ہر عمل میں شریعت کو مدنظر رکھیں، خواہشات کو چھوڑیں، اور کسی لومت لائم کی پروا نہ کریں، رب کی رضا اور اسلام کی تابع داری کو مطمحِ نظر رکھیں۔
(۲) اغیار کی نقالی سے بچیں: اسلام نے اپنے پیروکاروں کو جہاں ہر معاملہ میں رہنمائی کی تو وہیں دوسری جانب اغیار کی نقالی سے باز رکھا؛ لیکن تف ہے ہماری مسلمانی پر! کہ ہم تعلیماتِ اسلامی سے بےخبر ہیں، اکثر معاملات میں غیروں کی نقالی کے عادی ہوگئے، غیروں کے خوشی کے تہوار ہو کہ جشن کے مواقع، حد تو یہ ہے کہ ایسے مواقع پر مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کرنا دشوار ہوجاتا ہے؛ حالاں کہ یہ سخت ترین گناہ اور سخطِ رب کا باعث ہے۔
(۳) تعلیم اور ایجوکیشن کو فروغ دیں:
اقوام کی تعمیر وترقی میں تعلیم کا ایک اہم کردار رہا ہے، کیوں کہ تعلیم ترقی کی شاہِ کلید ہے، آج ہماری بحالی کی ایک اہم سبیل اور علاج یہ کہ ہم تعلیم کو فروغ دیں، تعلیم اور ایجوکیشن پر زور دیں، جب تک ہم تعلیم سے دور رہیں گے تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئیں گے؛ لہٰذا مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔
(۴) صحابیات کی سیرت پڑھیں:
امتِ مسلمہ کے لئے سب سے بہترین آئیڈیل اور معیارِ ایمان صحابہ کرام ؓ ہیں، اپنے اندر صحابہ کرام ؓ جیسی دینی حمیت اور ایمانی غیرت پیدا کردیں، صحابہ ؓ کی قربانیوں سے بھری زندگی سے سبق لیں، صحابیات کی پاکیزہ اور حجابی زندگی کو پڑھیں، شرعی برقع زیب تن کریں، اپنی عزت و آبرو کی خاطر چمک دمک اور فیشن کی قربانی دیں۔
(۵) حدود میں رہ کر اقدام کریں:
مخالف حالات کا پیش آنا امرِ بدیہی ہے، اور اپنا حق وصول کرنا کوئی ناروا بھی نہیں؛ لیکن اطمینان اور سنجیدگی سے سوچ کر حل نکالیں، اور حدود میں رہ کر ایسے اقدامات کریں، جو مؤثر بھی ہو اور مفید بھی، صرف جذبات میں فیصلہ کرنے کے بعد ٹھنڈا پڑ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا؛ لہٰذا سونچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔
(۶) اپنی اولاد کی فکر کریں:
انسان کا صرف خود اچھا عمل کرنا کافی نہیں ہے؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کی اچھی تربیت کرے؛ اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو بھی دوزخ سے بچانے کی تدبیر کرے اور اپنے متعلقین کو بھی؛ کیوں کہ آپﷺ نے اس سلسلہ میں بنیادی بات فرمائی کہ تم میں سے ہر شخص اپنے زیر اثر لوگوں کے بارے میں جواب دہ ہے: ”کلکم مسئول عن رعیتہ“ ۔ ( بخاری:۴۹۰۴)
پیغام!
سلام ہے قوم کی ان جانثار اور جرأت مند بہنوں کے نام! جنہوں نے پوری ہمت وشجاعت کے ساتھ فرقہ پرستی کے سامنے ڈٹی رہی، اور اپنی جواں مردی وہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور منھ توڑ جواب دے کر ایک بار پھر حضرات صحابیات کے جذبہ ایمانی کی یادتازہ کردی، اور زبانِ حال وقال سے کہہ دیا کہ
نہیں ایسا نہیں ہوگا،کبھی ایسا نہیں ہوگا
کبھی ایمان کا قرآن کا سودا نہیں ہوگا
ہمیں تم قتل کردو شوق سے منظور ہے لیکن
شریعت کے کسی مدعے پے سمجھوتہ نہیں ہوگا