طلاق کی کثرت معاشرہ کا ناسور

ازقلم: سفینہ پروین
متعلّمہ جامعہ امّ الہدی پرسونی مدہوبنی بہار

نکاح ایک عظیم نعمت ہے،جو عفت وپاکدامنی کا ضامن ہے، زناسے حفاظت کاذریعہ ہے، نسلِ انسانی کی بقاکا واحدراستہ ہے، انبیاء کرام علیہم السّلام کی سنت ہے،اس پاکیزہ رشتہ کاآغاز حضرتِ آدم علیہ السلام سے ہوا، جو آج تک جاری ہے اور جنت میں بھی باقی رہے گا، دوسرے کسی رشتہ کو یہ خصوصیت حاصل نہیں۔(الدرالمختار:2/28) یہ مقدس رشتہ جب وجودمیں آتاہے، تو اس میں ہمیشگی مقصود ہوتی ہے؛ تاکہ زوجین عفت وپاکدامنی کے ساتھ فرحت بخش زندگی گذارسکیں،اورافزائشِ نسل کاسلسلہ جاری وساری رہے،جومقاصدِ نکاح میں ایک ایک اہم ترین مقصد ہے، مگر افسوس صد افسوس!کہ عصرِحاضرمیں ہمارے سماج کے اندر اس پاکیزہ رشتے کوختم کرنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہاہے،جسے ہم”طلاق” کہتے ہیں ۔آج یہ بات عمومی طور پر دیکھی جا رہی ہےکہ لوگ ذرا ذرا سی بات پراپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں، اور طلاق بھی ایک دو نہیں، مکمل تین طلاق ،جس سے نہ جانے کتنے ہنستے کھیلتے خاندان برباد ہوکر رہ گئے،حالاں کہ طلاق اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے، صرف ضرورت کے وقت استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ”أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّهِ الطَّلَاقُ“ جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔(ابوداؤد بحوالہ مشکوٰة ص:293) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نے شدید ضرورت کے وقت ہی طلاق کی اجازت دی ہے،مثلًا:(1) زوجین کے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو، دونوں ایک دوسرےسے سخت نفرت کرتے ہوں، اورباہمی اختلاف اس قدر شدت اختیار کرجائے کہ حل کی کوئی شکل نہ ہو۔(2)یابیوی کسی وجہ سے قابلِ جماع نہ ہو یااُس سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہو اور وہ سَوکَن کو برداشت کرنے پر راضی بھی نہ ہو۔(3)یاشوہربیماری یاکسی اور وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو جو کہ حقوقِ زوجیت کاایک اہم حصہ ہے۔(4)یادونوں گزراوقات میں تنگی محسوس کرتے ہوں، شوہر نان ونفقہ اور مکان نہ دے سکتا ہو۔اِن جیسے حالات میں اگر علاحدگی کاراستہ نہ اپنایا گیاتو زندگی اَجیرن ہوکر رہ جائے گی،اس لیے ایسی صورتوں میں ہرپہلو سے غور وفکر کرکےشرعی ہدایات کی روشنی میں علاحدگی کاراستہ اختیار کرنا چاہیے،تاکہ زوجین میں سے ہر ایک آئندہ اپنی پسند کے مطابق شادی کرکے سکون کی زندگی گزار سکے۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ میاں بیوی میں بعض اوقات ناراضگی واختلاف ہو جاتاہے،یہ کوئی باعثِ تعجب نہیں، جب بھی کچھ لوگ ایک جگہ رہتے ہیں تو اُن کے درمیان اختلاف ہوتا ہی ہے، جب چند برتنوں کو ایک ساتھ رکھا جاتاہے توان کا کھڑکنا یقینی ہے،میاں بیوی کا اختلاف تو دورِ نبوی میں بھی تھا، خود بارہاحضرت نبی اکرم ﷺ کو اپنی ازواج کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، ”واقعۂ اِفک اور واقعۂ مغافیر“ کاذکرخود قرآن شریف میں موجود ہے،لیکن ظاہر ہے کہ ہراختلاف وناراضگی کا حل اگر طلاق کو سمجھ لیا جائے تویہ جہاں انتہادرجہ کی حماقت ہے وہیں دین سے ناواقفیت کا ثبوت بھی!اگر بیوی واقعی نافرمانی پر آمادہ ہو،تو یہ درست نہیں کہ پہلے ہی مرحلہ میں طلاق کی راہ اختیار کی جائے ؛بلکہ ضروری ہے کہ پہلے اصلاح و مفاہمت کے تمام ذرائع اختیارکیے جائیں ،قرآن کریم کے بیان کے مطابق اصلاح و مفاہمت کے بنیادی ذرائع تین ہیں :(1)فَعِظُوْہُنَّ: محبت اور نرمی سے بیوی کو سمجھایا جائے۔(2) وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ: سمجھانے سے نہ سمجھے تو چند دنوں ہم بستری ترک کردی جائے ، اسی کو قرآن میں ” ھَجر فی المضاجع” کہا گیا ہے "،هَجر” کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عورت کو میکہ بھیج دیاجائے ، یا گھر سے باہر نکال جائے ؛ بلکہ اس کا مطلب یہ کہ اپنے گھراور اپنے کمرہ میں رکھتے ہوئے صرف چند دنوں اُس سےمیاں بیوی والا مخصوص تعلق نہ رکھاجائے۔(3)وَ اضْرِبُوْہُنَّ ۚ :اگر اس سے بھی اصلاح نہ ہوپائے تو اللہ رب العزت نے معمولی طورپرمارنے کی بھی اجازت دی ہے،جس سےجسم پرورم نہ آئے،نشان نہ پڑے،اہانت آمیز انداز نہ ہو؛ اسی لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسواک اور اس جیسی چیز سے معمولی طریقہ پر مار سکتا ہے ، ( تفسیر قرطبی :1/438) گویامارنا مقصود نہیں ہے،بلکہ احساس دلانا مقصود ہے، تاکہ بیوی اپنے رویہ کی اصلاح کرسکے،اور یہ معمولی مار اورسرزنش طلاق کی نوبت آنے سے بہتر ہے۔ اگر ان تین طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ سے بیوی کے رویہ میں تبدیلی آجائے ، تو پھر خواہ مخواہ اس کی پیچھے پڑنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔[النساء:34] اور اخیرمیں ایک بات یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ اگر زوجین زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں توانہیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پڑیں گے، ایک دوسرے کی غلطی کو نظر انداز کرنا پڑے گا، انہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہم دونوں انسان ہیں، اورغلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، شوہر اگر بیوی کی چھوٹی چھوٹی غلطی کو نظر انداز کردے اور بیوی اپنے شوہر کی چھوٹی چھوٹی غلطی کو نظر انداز کر دے تو طلاق کیا کبھی غصے کی بھی نوبت نہیں آئے گی ان شاءاللہ۔