ابتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ
جوں جوں بگ بینگ تھیوری کی صداقت ثابت ہو رہی ہے قرآنِ مجید کی حقانیّت بھی اَظہر من الشمس ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تخلیقِ کائنات کے زُمرے میں قرآنِ مجید ایک قدم مزید آگے بڑھاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ کائنات میں صفر درجہ جسامت کی اِکائیت سے اِنشقاق اور وُسعت پذیری کا عمل کس طرح شروع ہوا؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں ہے۔ مندرجہ ذیل دو آیاتِ مبارکہ اِس موضوع پر بڑی معنی خیز ہیں :
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِO مِن شَرِّ مَا خَلَقَO
(الفلق، 113 : 1، 2)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںo ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےo
ہمارے موضوع کی مناسبت سے اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ ’’فَلَق‘‘ اور ’’خَلَق‘‘ بطورِ خاص قابلِ توجہ ہیں۔ لفظِ ’خَلَق‘ اپنے مفہوم کا مکمل آئینہ دار ہے اور واضح طور پر عملِ تخلیق کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی توجہ طلب ہے کہ لفظِ ’فَلَق‘ عملِ تخلیق کے ساتھ ایک گہرا اور قریبی تعلق رکھتا ہے۔ آیئے اب ہم پہلی آیتِ کریمہ میں وارِد ہونے والے لفظ ’فَلَق‘ کے معانی اور اہمیت کو سمجھیں۔
’ڈاکٹر ہلوک نور باقی‘ نے عربی گرامر کی رُو سے لفظِ ’’فَلَق‘‘ کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ تاہم اِس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنا اور شدید دھماکہ کرنا ہے۔ یہ ’’فَلَقٌ‘‘ سے مشتق ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق اِس میں پھٹی ہوئی شے کا تصوّر بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہ تصوّر ہے جو مذکورہ مظہر کو عیاں کرتا ہے۔ ’’فَلَق‘‘ ایک شدید دھماکے کا نتیجہ ہے، جو اپنے اندر اِنتہائی غیرمعمولی رفتار کا تصوّر بھی رکھتا ہے۔ مِثال کے طور پر ’’تَفَلُّق‘‘ کا معنی حد درجہ رفتار کے ساتھ بھاگنا ہے۔
قرآنِ مجید صفاتِ باری تعالیٰ کے ذِکر میں فرماتا ہے :
فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى.
(الانعام، 6 : 95)
دانے اورگُھٹلی کو پھاڑ نکالنے والا۔
صَرفی پس منظر کی اِس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم ’’فَلَق‘‘ کے لُغوِی معانی پر غور کرتے ہیں۔ لُغوِی اِعتبار سے ’’فَلَق‘‘ کے معانی کو یوں ترتیب دِیا جا سکتا ہے :
ایک ایسی مخلوق جو عدم کے پھٹنے کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ ظاہر ہو۔
بیج کے پھٹنے سے ظاہر ہونے والا پودا۔
روزانہ کا وہ عمل جس کے معنی اِس تمثیل سے لئے گئے ہیں کہ روشنی پھٹے اوراندھیرے میں ظاہر ہو، جسے پَو پھٹنا کہتے ہیں تب صبحِ صادِق اور بعد اَزاں طلوعِ آفتاب ہوتا ہے۔
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیرو توضیح میں بہت سے مفسّرین نے عام معانی کو ترجیح دی ہے۔ تاہم کچھ مفسّرین نے تمثیلی معانی صبحِ صادِق اور طلوعِ شمس وغیرہ بھی اَخذ کئے ہیں۔ بعض مفسّرین نے اِس سے مُراد جہنّم میں واقع شدید دھماکوں کا علاقہ بھی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’فَلَق‘‘ ایسے نتیجے یا اَشیاء کا معنی دیتا ہے جو اچانک اور شدید دھماکے سے وُقوع پذیر ہوں۔ اِس لفظ کے دُوسرے مفاہیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جو تمثیلی اَنداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اِس انداز کو اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے 14 صدیاں قبل علمِ طبیعیات (physics) اور علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) کے بارے میں اِنسانی شعور کی واقفیت اِس قدر نہ تھی کہ وہ ان سائنسی مفاہیم کو بعینہ اَخذ کر سکتا۔
جدید سائنسی تحقیقات کی رُو سے کائنات کا آغاز جس بڑے حادثے سے ہوا وہ ایک عظیم دھماکہ تھا۔ یہاں ہم عظیم دھماکے کے نظریئے (Big Bang theory) کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا مناسب خیال کریں گے :
1950ء کے عشرے میں ’آئن سٹائن‘ کے پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور سے متاثر ہو کر ’ریلف الفر‘ (Ralph Alpher)، ’ہینس بیتھے‘(Hans Bethe) اور ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نے پہلی بار عظیم دھماکے کے نظرئیے کو غور و خوض کے لئے منظرِ عام پر پیش کیا۔ یہ نظریہ سالہا سال گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا رہا۔ دو اہم دریافتوں نے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ثابت ہونے میں مدد دی۔
پہلی ایڈوِن ہبل کی’ کائناتی سرخ ہٹاؤ‘ (cosmic red shift) کی دریافت تھی، جو دُور ہٹتی ہوئی کہکشاں کے طِیف (spectrum) سے حاصل ہوئی۔ تاہم سب سے حتمی اور دوٹوک فیصلہ کن دریافت 1965ء میں ہونے والی 3 درجہ کیلون کی مائیکرو ویو پس منظر کی شعاع ریزی تھی۔ یہ شعاع ریزی اِبتدائی دھماکے کے باقی ماندہ اَثرات کی صورت میں ابھی تک پوری کائنات میں سرایت کئے ہوئے ہے اور اُس کی لہروں کا شور ریڈیائی دُوربینوں کی مدد سے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
طبیعیات کی ایک اور اہم دریافت جس نے سائنسدانوں کو ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ کی صداقت تک پہنچنے میں مدد دی وہ ’آزاد خلا کی تباہی‘ کی دریافت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی پایا نہیں جاتا، مگر تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خلاء میں بھی مادّے کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف: ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ؛ اگلی قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں!