ہندستان میں فرقہ واریت ایک اہم مسئلہ ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک ناسور ہے۔ لوگ اس کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں اس کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندستان کا میڈیا اس سماجی بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے بجائے سماج میں مزید نفرت کو پھیلانے اور لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر گھولنے اور منفی رجحانات کو ہوا دینے میں اپنی کوششیں صرف کر رہا ہے۔
میڈیا کو جمہوریت کا پانچواں ستون تسلیم کیا جاتا ہے، جو بڑے پیمانے پر نفسیات اور رائے عامہ کو متاثر کرتا اور اسے کنٹرول کرتا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں مشترکہ اقدار کو فروغ دینے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن افسوس جیسے جیسے دنیا تہذیب یافتہ کہلا رہی ہے ان ذرائع کا استعمال کرکے ہمارا معاشرہ مزید حیوانیت کا شکار ہو رہا ہے۔ ہندستان جیسے فرقہ وارانہ اور مذہبی طور پر حساس اور پولرائزڈ ملک میں اس کا منفی یا مثبت کردار اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ جہاں اسے دو دھاری تلوار کے طور پر استعمال کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منمیت کور، ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات، بریلی کالج نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ آزاد ہندستان میں میڈیا کو حقیقتاً فرقہ وارانہ تشدد کی پیداوار میں گہری طرح سے ملوث کیا گیا ہے۔ یہ پایا گیا ہے کہ بعض قسم کے میڈیا عناصر نے اقلیتی برادریوں خاص طور پر مسلمانوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر اجاگر کیا ہے۔ سیاسی طبقے اور ہندستانی سماج کے متعلقہ طبقوں کے علاوہ جو بار بار فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دیتے ہیں چاہے وہ ہندو بمقابلہ مسلم، سکھ یا عیسائی ہو۔ میڈیا پر مختلف برادریوں کے درمیان سیاست کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ جنون کو ظاہر کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
اس طرح کے کاموں میں پرائیویٹ ادارے تو چھوڑیے سرکاری ادارے بھی پاک نہیں ہیں۔ یہ ادارے بھی مستقل اپنی معروضیت کھو رہے ہیں۔ ان اداروں نے ڈھٹائی کے ساتھ تعصب کو فروغ دیا اور میڈیا کی اخلاقیات کو پیروں تلے روند ڈالا۔ دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو جیسی قومی اور سرکاری اداروں پر بھی اسی قسم کا الزام لگایا جاتا ہے۔ رووینا رابنسن اور سوریہ پرکاش اپادھیائے نے اس حوالے سے اپنی تحقیقات میں واضح کیا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے کلدیپ نیر کے حوالے سے میڈیا کو غیر سیکولر ہونے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو پر مذہبی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ پریس اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت سے اسکالرز کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ وہ معروضیت کی کمی، اقدار سے عاری، متعصب، غیر اخلاقی، اور غلط معلومات پھیلانے کا شکار ہے۔ دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آر) کے ذریعے مہابھارت، رامائن وغیرہ نشر کیے جاتے ہیں۔ان کے بقول ایسے اداروں سے مذہبی سیریل نشر کرکے مذہبی جوش بھڑکانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔
معروف محقق اصغر علی انجینئر اور سری منجری نے بھی کہا ہے کہ میڈیا دھیرے دھیرے اپنی بنیادی معروضیت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ انتہا کی حد تک متعصب، غیر اخلاقی، اور غلط رپورٹنگ کا شکار ہے۔ انھوں نے اپنی ایک تحقیق میں امر اُجالا، دینک جاگرن، جن ستا، نوبھارت ٹائمز، الجیعۃ، مدینہ، عظائم، ندائے ملت، برہان (اردو کے یہ سارے اخبارات اب بند ہو گئے) جیسے اخبارات کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اداریوں، کالم، مضامین یہاں تک کہ رپورٹنگ تک میں فرقہ وارانہ مواد پروسے جاتے ہیں جن سے سماج میں غلط میسیج جاتا ہے۔ اس قسم کے میڈیا ہاوسز بڑے کاروباری گروپوں کی ملکیت، مالی اعانت اور کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ وہ اکثر خبروں کو بکھرے ہوئے اور فرقہ وارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے بقول اس کے علاوہ فرقہ پرست گروہوں اور تنظیموں کے اپنے اخبارات ہوتے ہیں اور ان کا سرکولیشن بعض اوقات بڑے روزناموں یا شیوسینا کے سامنا جیسے سیکولر اخباروں سے زیادہ ہوتا ہے۔ قومی پریس کے کچھ حصے بھی فرقہ وارانہ صورت حال کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔
آج کی دنیا میں اخبارات اور رسائل کے علاوہ سوشل میڈیا، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام سماجی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارم تباہ کن ہتھیار کے طور پر کام کرتے ہیں، اس حوالے سے متعدد تحقیقات سامنے آ چکی ہیں۔ 2013 – 2014 میں مظفر نگر میں تشدد کا پھیلنا اس کی ایک روشن مثال ہے، جہاں اسے جعلی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا جس نے ہمارے ملک کی تاریخ کے سب سے خوں ریز فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا۔ اسی طرح اتر پردیش میں 2014 میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات، جس میں 600 سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ریکارڈ کیے گئے، وہ بھی اس کے نقصان دہ مقاصد کے لیے استعمال کی مثالیں ہیں۔ ٹویٹر اور واٹس ایپ پر فرقہ وارانہ طور پر پیغام رسانی نے ان فسادات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس بابت افواہوں کا بھی اہم کردار ہے جو فرقہ پرستوں اور سماج مخالف عناصر کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایسے عناصر جانتے ہیں کہ افواہ، یہاں تک کہ ایک چھوٹی سی غلط خبر، ایک معمولی حادثے کو بڑے فرقہ وارانہ تشدد میں بدل سکتی ہے۔ اس سے معاشرے کا امن خراب ہو سکتا ہے۔ نامور ماہر نفسیات سدھیر کاکڑ کہتے ہیں کہ افواہیں اس احساس کی تعمیر کے لیے اہم ہیں کہ کسی کی فرقہ وارانہ شناخت خطرے میں ہے، جو عام طور پر فسادات کے حالات میں کمیونٹی کے پرتشدد ردعمل کی نشان دہی کرتی ہے۔ انھوں نے مشاہدہ کیا کہ فسادات سے پہلے اور بعد میں افواہوں کا کردار خوف ناک رہا ہے کیونکہ افواہیں صرف منہ کی باتوں سے پھیلتی ہیں، اس لیے انھیں مقامی اخبارات اور رسائل میں بھی جگہ ملتی ہے۔ اس بابت اورنگ آباد فسادات 1968 مغربی بنگال 1950، جبل پور فسادات 1961، بھاگلپور فسادات 1989، گجرات فسادات 2002، اور مظفر نگر فسادات 2013، دہلی فساد 2020 میں افواہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ مزید برآں، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس اور سوشل میڈیا ایپس پر فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق تصاویر اور پیغامات کی بوچھاڑ بھی اس میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں امن و سکون کا ماحول غارت ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ افواہوں کے نشے میں جھگڑے کو فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ایسے میں میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا اور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں روانڈامیں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہے، جس میں 6 اپریل 1994 کو بے نظیر افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ایڈٹ کردہ کتاب ’دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینو سائڈ‘ ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک ’ہوتو‘ جو اکثریت میں تھے اور دوسری ’ٹوٹسی‘ جو اقلیت میں تھے۔ روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ائرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں ’کاکروچ‘ کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ ’کپڑوں‘ سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ ’پوہا‘ سے۔ تو کچھ لوگ ’غدار‘ کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے تو کچھ ’بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالو کو‘ جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں، یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن اور میڈیا پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دہرائی جاتی ہیں۔
تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہمارے میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور ’ٹوٹسیوں‘ کو ’کاکرو چ‘ کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے ’ہوتو‘ میں ڈنڈے تقسیم کیے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ غدار کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقوؤں سے قتل کیا۔ صلح جو ’ہوتو‘ بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندووں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول، لاٹھی، ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔
روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کارفرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا (جیسے 2002 میں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔) ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔ اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور ’ٹوٹسی‘ افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں ’ٹوٹسی‘ لڑکیوں کو جنسی غلام بنایا گیا۔ یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان ’کیڑے مکوڑوں‘ کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی ہلاک کر دیا گیا جہاں کسی نے جان بچانے کے لیے پناہ لینے کی کوشش کی۔
اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گزشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کی تفصیلات دیکھیے۔ جامعہ اور شاہین باغ میں گولی چلائے جانے کے واقعے کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنئی میں سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ہو رہے پر امن احتجاجات، اس پر میڈیا اور پولس کے رویے کو دیکھیے، منی پور میں میڈیا کے رویے کا جائزہ لیجیے۔ ابھی حال ہی میں میوات کے فسادات اور ٹرین میں ایک متعصب ہندو سی آر پی ایف کے جوان کے ذریعے نہتے مسافروں پر حملہ اور اس کے بعد کے میڈیا کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ سی اے اے کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ، جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ہنگامہ اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجیے۔ ہندستان میں میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمے داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھا ہے۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں، گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا ایسی زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کرکے دانستہ لوگوں کو گم راہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئے واردات ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ ’گو ہتیا‘ کے نام پر لوگوں کی ’لنچنگ‘ کی جا رہی ہے۔ نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملہ کر رہے ہیں، پولس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے مگر بجائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرے، سوالات کھڑے کرے، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انھیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہوگیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورت حال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟
ازقلم: محمد علم اللہ