بنیاد کی ناپختگی

فارسی کا یہ شعر آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ

خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

یعنی جب معمار نے پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی ، تو ثریا تک جانے والی دیوار ٹیڑھی ہی ہوگی۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مذکورہ شعر میں شاعر نے تعمیر کاری کے لیے جس کو مرکزی اور بنیادی حیثیت سے پیش کیا ہے وہ اینٹ، پتھر ، مٹی ، پانی ، گارا اور ملازم وغیرہ کے بجاۓ "معمار” ہے۔ شاعر نے "خشت اول” رکھنے والا "معمار” کو بتایا ہے ، اور اس خشت اول کو سیدھی رکھنے کے بجاۓ ٹیڑھی رکھنے کی صورت میں جو ثریا تک ٹیڑھی دیوار جاتی ہے ، اس کا ذمے دار بھی معمار ہی کو مانا ہے۔

یہی حال بچوں کی ابتدائی تعلیم کا ہے کہ وہ خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر وہ مظبوط نہ ہوئی ، تو اس پر کھڑی ہونے والی بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کی دیوار بھی ٹیڑھی اور کم زور رہے گی، خواہ وہ ثریا کی بلندی کو چھو لے۔
چند روز قبل میں عارضی طور پر ایک چھوٹے سے مدرسے میں حفظ و ناظرہ اور دینیات کے بچوں کو پڑھا رہا تھا ، تو مجھے ایسے بہت سے بچوں سے واسطہ پڑا جو پڑھ تو رہے قرآن تھے؛ مگر قواعد کی رعایت ندارد تھی؛ بلکہ وہ سرے سے بنیادی قواعد سے ہی لاعلم تھے۔ میں نے کچھ غصے اور کچھ تعجب کے ملے جلے انداز میں ان سے پوچھا کہ تم نے "قاعدے”کس سے پڑھے؟ تو انہوں نے کسی "قاری صاحب” کا حوالہ دیا۔ سچ پوچھیے تو میرا جی کرتا تھا ، ان بچوں کا قرآن بند کرا کے ان کے ہاتھوں میں قاعدے تھما دوں اور تب تک انہیں قرآن پڑھنے نہ دوں ، جب تک انہیں قواعد خوب مستحضر نہ ہو جائیں! مگر کیا کرتا ، میں نہ اس مدرسے کا ذمے دار تھا اور نہ کوئی مستقل استاد ہی۔
غلطی در اصل یہاں پڑھانے والوں کی ہوتی ہے۔ پڑھانے والا بچوں کو جیسا پڑھاۓ گا ، بچے ویسا ہی پڑھیں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ بہت سے(یا اکثر) پڑھانے والوں کے پیش نظر چوں کہ معاش کا حصول ہوتا ہے ؛ اس لیے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ بچہ صحیح پڑھ رہا ہے یا غلط! اور یہ کہ بچہ کام یابی کی طرف بڑھ رہا یے یا ناکامی کی سمت گام زن! اسی طرح جو پڑھانے والے چاہتے بھی ہیں کہ بچے صحیح پڑھیں اور وہ کام یاب ہوں ، تو وہ بے فکری اور بے توجہی کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ فکرمندی، شوق و ذوق اور محنت و ریاضت کا ثبوت نہیں دیتے۔ یعنی اول الذکر طبقے کو تو مثبت اور منفی کسی پہلو سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ، اور ثانی الذکر کو اگرچہ مثبت پہلو سے دل چسپی ہوتی ہے ؛ مگر وہ کوشش ، محنت اور مطلوبہ جد و جہد سے گریزپا ہوتے ہیں۔
اس غفلت اور لا پروائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر بچہ ناظرہ پڑھ کے آگے نہیں پڑھتا ، اور وہ کسی اور مشغلے میں لگ جاتا ہے ، تو وہ کبھی اپنا قرآن درست نہیں کر پاتا۔ پوری زندگی یوں ہی غلط سلط قرآن پڑھتا رہتا ہے ، اور اگر بالفرض ناظرے کے بعد بھی وہ آگے تعلیم جاری رکھتا یے ، تو بھی وہ قرآن کو غلط پڑھتا رہتا ہے ، بہت مشکل سے جاکر ہی کہیں قرآن صحیح ہو پاتا ہے ؛ لہذا بچوں کو شروع ہی سے قواعد کی رعایت کے ساتھ قرآن پڑھانے کا اہتمام ہونا چاہیے اور اس حوالے سے کسی طرح کی لا پروائی اور غفلت شعاری کا روا دار نہ ہونا چاہیے۔
دوسری چیز ہے تحریر۔ تحریر کی اہمیت و افادیت سے آپ واقف ہیں۔ تحریر کے سلسلے میں یہ کوتاہی عام ہے کہ بہت سے اساتذہ بچوں کو مشق و تمرین کے لیے تحریر دیتے ہوۓ خود بھی خوش خطی اور درست نگاری کا اہتمام نہیں کرتے۔ لا پروائی سے جیسے تیسے لکھ کر بچوں کے حوالے کر دیتے ہیں، اور اگر کچھ لوگ اس کا اہتمام کرتے بھی ہیں، تو وہ اس کی فکر نہیں کرتے کہ بچے مشق کیسے کر رہے ہیں؟ آیا وہ خانہ پوری کے طور پر جوں توں کام کو نمٹا لیتے ہیں یا کچھ مستعدی اور فکرمندی کے ساتھ مشق کرتے ہیں؟ نتیجہ یہ ہے کہ وہی بہت سے بچے پڑھ لکھ کر عالم فاضل بن جاتے ہیں ؛ مگر تحریر ایسی ہوتی ہے ، جیسے کسی بچے کی۔ کیا خوش خطی اور درست نگاری ایسی معمولی اور غیر اہم چیز ہے کہ اس کے لیے ذرا بھی فکرمندی سے کام نہیں لینا چاہیے اور پوری زندگی جیسے تیسے قلم گھسیٹتے رہنا چاہیے؟
خوش خطی اور درست نگاری کے حوالے سے معروف ادیب و قلم کار اور انشا پرداز مولانا نور عالم خلیل امینی کی کتاب کے ایک دو اقتباسات ملاحظہ ہوں:
"پہلے کے علما اور اہل قلم کی تحریر بہت پاکیزہ اور پر کشش ہوتی تھی۔ ایک قاری کو خواہ مخواہ بھی اسے پڑھنے کی خواہش ہوتی تھی”۔(حرف شیریں : ٨٦)
"حسن خط انسان کا بہت خوب صورت زیور ہے۔ میں تو کہا کرتا ہوں کہ کسی پڑھے لکھے آدمی کے لیے زیبا نہیں کہ وہ بد خطی کے مرض میں مبتلا ہو۔ اگر خدا نہ خواستہ مبتلا ہو تو اسے "زود اثر دواؤں” کے ذریعے اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ طالب علمی کے زمانے میں، میں حسن خط کا اس درجہ رسیا تھا کہ جس طالب علم؛ بلکہ عالم کا برا خط دیکھتا تھا، تو مجھے اس کے علم کے متعلق بد ظنی ہو جایا کرتی تھی اور مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ اس کو کچھ بھی اتاپتا نہیں ہے، یہ جاہل مطلق ہے۔ جب اس نے اپنا خط تک درست نہیں کیا، سطریں ٹیڑھی میڑھی ہوتی ہیں، حد یہ کہ املا تک درست نہیں ہے، تو اس نے خاک پڑھا ہوگا! لیکن بعد میں میرا یہ نظریہ تبدیل ہوگیا جب کثرت نگارش کی وجہ سے میری اپنی تحریر بھی خامی آلود ہوگئی اور بعض خاصے اہل علم کی بد خطی کا بھی تجربہ ہوگیا ؛ لیکن اس کے با وجود بد خطی اور املائی غلطیاں میرے حلق سے نیچے نہیں اترتیں اور کسی بد خط فاضل کے متعلق تا ہنوز اپنے "عقیدے” کی کوئی خاص تصحیح نہیں کر سکا ہوں۔ پتہ نہیں، کیوں میرا یہ یقین ہے کہ بد خطی اندرونی نفسیاتی اور ذہنی خامیوں، انتشار اور بے ترتیبی کی عکاس ہوتی ہے”۔(حوالہ سابق : ٨٧–٨٨)
خلاصہ یہ کہ بچوں کی پڑھائی اور لکھائی ، دونوں بڑی فکرمندی اور محنت کی طالب ہوتی ہیں۔ اگر اس حوالے سے ذرا بھی بے توجہی اور لا پروائی برتی گئی ، تو بچوں کی بنیادیں کم زور اور ناپختہ رہ جائیں گی اور نتیجتا ان کی تعلیمی بہتری خاطر خواہ نہ ہو سکے گی۔

[ماہ نامہ صوت القرآن ، احمد آباد ، گجرات اور ماہ نامہ ریاض الجنہ جون پور ، یوپی میں شائع شدہ]

▪️▪️▪️

تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
فاضل دارالعلوم دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے