پاکستان میں پاگل بندر

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپور سہارنپور واٹسپ نمبر 8860931450

پاکستان کے مشہور عالم دین مفتی طارق مسعود صاحب آج کل قرآن کریم میں گرامر کی غلطی کے حوالے سے چرچا میں ہیں ، جب ان کو توجہ دلائی گئی تو انہوں نے صاف طور پر معذرت اور توبہ و استغفار بھی کرلی ، مگر پاکستان کا جنونی مذہبی طبقہ ابھی بھی ”سر تن سے جدا“ کا نعرہ لگا رہا ہے ۔ پاکستان کے سمجھدار اور معتدل مزاج طبقات ان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ابھی پاکستان نہ لوٹیں ۔
مولانا محمود مدنی صاحب نے أسد الدین اویسی کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تو بھارت کے مسلمانوں کا جنونی طبقہ ان کے پیچھے کچھ اس طرح پڑگیا کہ عزت و احترام کی تمام حدیں پار کردی ۔
غامدی صاحب نے پاکستان میں توہینِ رسالت قانون کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا تو پھر سے وہی جنونی طبقہ حرکت میں آگیا ، غامدی صاحب کے مطابق جس مسجد میں وہ نماز ادا کرتے تھے اس مسجد کو ہی بم دھماکے سے اڑانے کا پلان بن چکا تھا بروقت غامدی صاحب بیرون مُلک شفٹ ہوگئے ۔ دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان دونوں ہی ملکوں میں ایک زمانے تک سرد جنگ چلتی رہی جسکا جہاں موقع لگا اس کی وہیں خبر لے لی ۔ مسلکی اعتبار سے تو گمراہی و ضلالت کے فتوے آج بھی عام ہیں پھر یہ ہی فتوے قوم میں جنون اور عدم برداشت کا ذہن پیدا کرتے ہیں۔ مشہور داعی ڈاکٹر ذاکر نائیک اس وقت پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں ، پاکستان میں پھر سے یہ ہی جنونی ٹولہ حرکت میں آگیا اور ان کو مناظرے کا چیلنج کرنے لگا ، ذاکر نائیک کے خلاف انتہائی بیہودگی کے ساتھ چیخنے چلانے لگا ۔

پاکستان میں یہ جنون ہر طبقہ میں پایا جاتا ہے وہاں کے سیکولر لبرل لوگوں میں بھی بلا کا جنون ہے پاکستان کا سیکولر طبقہ الحاد و دہریت کی طرف بڑھا جارہاہے اور سیکولر خواتین میکدے کی طرف جارہی ہیں، پاکستان میں ان کے پاس طاقت ہے تو وہاں کے جنونی سیکولر پوری طاقت سے حکومتی مشینری کو مذہبی جنونیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، نتیجتاً پاکستان ”پاگل بندروں“ کا میدان بن جاتا ہے اور مخالف رائے رکھنے والے حضرات کو اپنی جان بچانے کے لئے بیرون مُلک جانا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں اس جنون کی وجہ سے کتنے ہی علماء و لیڈران کو قتل کردیا گیا ، وہاں ہر بڑے اور مشہور عالم کی جان خطرے میں ہے ۔
پاکستانی جنون کو بھارت میں دیکھنا ہو تو بھارت کی ہندتوا طاقتوں کو دیکھ لو وہ آستھا ( عقیدت) کے نام پر گائے کا گوبر کھاجائیں ، پیشاب پی لیں ، جے شری رام کا نعرہ لگا کر کسی بھی انسان کو قتل کردیں ، یہ جنونی ٹولہ اقلیتوں کے خلاف حکومتی مشینری کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور جنون اس سب کو جواز justification بخش دیتا ہے ۔
مسلمانوں کو اس جنونی صورتحال کے خلاف اٹھ کھڑا ہوناچاہیے ، علماء و دانشوران کو گہرائی سے اس صورتِ حال کا تجزیہ کرنا چاہیے اور مدارس سے لیکر مساجد تک اسکول سے لیکر یونورسٹیز تک اعتدال پسندی سکھانی چاہیے ، تمام مذہبی سیاسی و نزاعی معاملات میں آخری فیصلوں کا حتمی اختیار کسی بھی صورت میں ہر کس و ناکس کو نہیں ہوناچاہیے ، اظہارِ رائے کی آزادی ، مذاکرات ، بحث ومباحثہ وغیرہ کا حق ہر انسان کو ہونا چاہئے ۔ جنون کی دوسری کڑی ہے ”اپنی رائے اور نظریات کو تھوپنا “ ۔ اپنی رائے اور نظریات کا اظہار خواہ وہ کتنے ہی غلط ہوں ہر کسی کا حق ہے ، مگر کسی کو یہ اختیار ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے اور نظریات دوسروں کے اوپر تھوپے خواہ آپ کو اپنی رائے اور نظریات کتنے ہی بھلے منطقی اور اعلیٰ پائے کے معلوم ہوں مگر آپ کو تھوپنے کا حق ہرگز نہیں دیا جاسکتا ۔خیال رہے کہ اس نقطے پر آکر مذہبی طبقہ ایک دم سے چیخ اٹھتا ہے کہ ایسے تو سماج میں آوارگی پھیلانے والوں کو کھلی چھوٹ مل جائےگی ؟ تو یاد رکھنا چاہیے کہ آوارگی پھیلانے والوں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کھلی چھوٹ مذہبی طبقے کو بھی ملی ہوئی ہے آپ اچھے خیالات و نظریات عام کیجیے ، اسلام کا پیغام عام کیجیے ، آزادی کے مذکورہ تصور کے سائے تلے ہی سینکڑوں مبلغین اسلام و دعاۃ وغیرہ پیدا ہوئے ہیں اور اسلام کی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں ، کسی عقلمند نے کہا ہے کہ برائی کو روکنے کے لئے دروازہ بند مت کرو ورنہ اچھائی بھی باہر ہی رہ جائے گی ۔
دوسرے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو نظریات و خیالات سماج کے لئے خطرناک اور تباہ کن ہوتے ہیں ان کی عمر کم ہی ہوتی ہے ، قرآن کریم کی اس آیت پر غور کیجیۓ ، وأما ما ينفع الناس فيمكث في الأرض( ترجمہ) جو بھی لوگوں کو نفع پہنچائے گا وہ وہ زمین میں ٹہر جائے گا ۔ تیسرے یہ کہ آزادی اظہارِ رائے سے ہماری مراد مغربی مفکرین کی بیان کردہ آزادی نہیں ہے بلکہ وہ آزادی مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عمل کرنے کے لئے عطاء فرمائی ہے وہ آزادی مراد ہے جس سے انسان کے تمام اعمال کی ذمے داری روز قیامت خود انسان پر ڈالی جاسکے اور انسان کو جزا یا سزا کا مستحق قرار دیا جاسکے ، یہ ہی وجہ ہے کہ اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق جہاں انسان کی آزادی ختم وہاں اللہ تعالیٰ کی باز پرس بھی ختم ۔ میرے نزدیک مسلمانوں میں سب سے زیادہ معتدل طبقہ جماعت اسلامی کا ہے ، جماعت اسلامی کی مسجدوں میں نماز پڑھو تو آپ کو ہر طرح کا اور ہر مسلک کا آدمی نظر آجاۓ گا اور کوئی کسی کی طرف اجنبیت بھری نگاہوں سے نہیں دیکھے گا نہ ہی فروعی مسائل و وظائف پر اصرار ‌نظر آئے گا کوئی کہیں پر ہاتھ باندھیں ، تراویح آٹھ پڑھے یا بیس ، نماز کرسی پر پڑھے یا بیٹھ کر ، آپ پینٹ پہنیں یا شلوار ، مولانا مودودی یا جماعت اسلامی کے دیگر راہنماؤں کی تنقید کریں یا تعریف ، تقلید کریں یا عدم تقلید ، جماعت اسلامی سب کو ہضم کرلیتی ہے اور سب کو مسلمان ہی سمجھتی ہے ۔

2/ اکتوبر 2024

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے