یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جو اپنی جوانی کے عروج میں تھی جب اس کا شوہر اسے چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کر لی۔ اس کے دو بچے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، تھے۔ اُس نے کبھی طلاق کی درخواست نہیں دی، یہ سوچ کر کہ یہ ایک عارضی چیز ہوگی جو ختم ہو جائے گی۔ مگر یہ عارضی دورانیہ طویل ہو گیا، اور اس نے خود کو اور اپنے بچوں کو نظرانداز ہوتے دیکھا۔ پھر بھی، اس نے طلاق نہیں مانگی کیونکہ وہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہوئے مطلقہ کا لقب نہیں چاہتی تھی، جیسے طلاق کوئی جرم ہو۔
اس عورت نے کھیتوں میں کام کیا، مویشی اور مرغیاں پالیں، تاکہ اپنے بچوں کو تعلیم دے سکے۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ایک دو منزلہ گھر بنائے جہاں وہ اپنے بچوں کی شادیاں کر سکے اور ان کے قریب رہ سکے۔ اس نے اپنے والد کے ورثے سے ملنے والے پیسے سے یہ خواب پورا کیا۔
اُس کے بیٹے کی شادی اس گھر میں ہوئی، مگر بیٹی کا شوہر اس گاؤں میں رہنے کو تیار نہیں تھا، اس لیے وہ شہر میں رہنے لگا۔ بیٹی نے بھی گاؤں کے نوجوانوں کو چھوڑ کر اپنے کام کے مقام پر ملنے والے لڑکے سے محبت کی اور شادی کرلی۔
وقت گزرنے کے ساتھ، اس عورت کے بیٹے کی بیوی اسے شہر لے گئی، اور بیٹا اس کے قریب رہنے لگا۔ اس عورت کے بچوں سے تعلقات بس فون اور کبھی کبھار کی ملاقاتوں تک محدود ہو گئے، خاص طور پر بیٹے کی جانب سے۔ اس نے جب محسوس کیا کہ اس کی زندگی میں اب اس کے بچے بھی کم ہی آتے ہیں، تو وہ خود ہی انہیں فون کرنے لگی۔
پڑوسیوں نے ہی اُس کی دیکھ بھال کی جب وہ بیمار ہوئی، اور ضرورت پڑنے پر اس کا خیال رکھا۔ وہ عورت اب اپنی زندگی کے فیصلوں پر پچھتا رہی ہے اور کہتی ہے کہ اگر وقت دوبارہ پلٹ جاتا، تو وہ سب کچھ مختلف طریقے سے کرتی۔
اس نے اپنے پڑوسیوں سے وصیت کی ہے کہ اگر کبھی وہ ان کو عادی اوقات میں نظر نہ آئے، تو دیکھ لیں کہ شاید وہ مر چکی ہو۔
واقعی، انسان دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے، مگر بدلے میں اسے خود کے لیے کوئی چھوٹا سا خوشی کا لمحہ بھی نہیں ملتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی قربانیوں اور اپنے والدین کی خوشیوں کا خیال رکھیں، چاہے وہ صرف ایک لفظ یا توجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔
یا اللہ! ہمارے والدین پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے ہمیں بچپن میں محبت اور شفقت سے پالا۔