سالارِ قافلہ: مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی (قسط اول)

بات 1982 یا 1983 کی ہے،میں جامعہ اسلامیہ نیوتنی،مئو،یو پی میں درس و تدریس میں مصروف تھا،والد محترم حضرت مولانا سید محمد شمس الحق نور اللہ مرقدہ کا خط ملا،مضمون یہ تھا کہ
مدرسہ اسلامیہ اماموری،پاتے پور،ویشالی کے ذمہ داروں نے یہ مطالبہ رکھا ہے کہ اپنے خانوادے سے ایک ایسے فرد کو مدرسہ اسلامیہ اماموری پاتے پور ویشالی کے لیے مقرر فرما دیں جو وہاں کے جملہ امور،درس و تدریس،نظم و نسق کو بحسن و خوبی سنبھال دیں” اور "کوئی تو سوا تمہارے اس کام کے لیے فی الحال فارغ دکھائی نہیں دیتا اگر تم بہتر سمجھو تو آجاؤ” والد صاحب علیہ الرحمہ کے علاوہ ہمارے پاس برادران بزرگ کا خط بھی اسی مضمون کا مجھے ملتا رہا اور اصرار بھی کہ "آجاؤ” قصہ مختصر،میں نے "مدرسہ اسلامیہ اماموری،پاتے پور” جوائن کر لیا۔
جس وقت میں نے "مدرسہ اسلامیہ اماموری” میں قدم رکھا،وہ دن اور آج کا دن۔زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا۔دسمبر 1990 میں؛میں مدرسہ اسلامیہ اماموری سے مدرسہ احمدیہ ابابکرپور ویشالی آگیا۔1984 سے 1990 کے درمیان کا جو وقت مدرسہ اسلامیہ اماموری میں گزرا،بڑی محنتوں،مشقتوں اور نوع بنوع مخالفتوں کا گزرا،باوجود ان مخالفتوں کے اساتذہ مدرسہ،کارکنان مدرسہ،رفقاء و ہمدردان مدرسہ کے "صدق دل” سے تعاون نے ساری مخالفتوں کو (ھباء منثورا) گرد کر کے رکھ دیا اور وہی معاملہ ہوا کہ
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس دور قیام کے واقعات و حادثات بہت دلچسپ ہیں اور سبق آموز بھی، لکھنے پر آؤں تو کئی صفحات سیاہ ہو جائیں اور وہی بات ہو جائے۔ "وہ کہیں اور سنا کرے کوئی” لیکن فی الحال وہ داستان الف لیلہ مقصود نہیں،مقصود ہے عزیز گرامی قدر مولانا قمرعالم ندوی کی بہ اصرار یہ درخواست کہ آپ مدرسہ اسلامیہ اماموری کے اپنے دور قیام میں میرے والد محترم کے تعلق سے آپ کچھ ضرور تحریر فرما دیں،انہی کی فرمائش اور اصرار پر درج ذیل سطور سپرد قلم کر رہا ہوں۔
میرے اور مولانا کے درمیان،جس وقت میں مدرسہ اسلامیہ اماموری پہنچا،ایک معاملہ صدر مدرسی کا تھا،عجیب نقشہ تھا،سارے لوگ اس بات پر مصر تھے کہ کل چھوڑ آج بلکہ ابھی ان سے "صدر مدرسی” چھین کر مجھے دے دی جائے،ایسا محسوس ہوتا”ان سارے مسائل کا حل "کرسی صدارت” کی منتقلی ہی میں پوشیدہ ہے”میں نے لوگوں کو سمجھایا کہ "کام سے کام،آپ حضرات اطمینان رکھیں،انشاءاللہ وہ سب ہوگا جس سے نیک نامی ہم سب کی ہوگی”۔الحمدللہ لوگوں نے میری بات رکھی اور ہم لوگ باہم مل کر مدرسہ کی ترقی کے کام میں جٹ گئے اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،کام سامنے آتا گیا۔(صدر مدرس)مولانا عبدالقیوم صاحب بنے رہے اور ہم سب اساتذہ بحسن و خوبی ان کی صدارت میں کام کرتے اور بڑھتے گئے اور ظاہر ہے جہاں اختلاف کے باوجود کام کرنے کا سلیقہ آجائے وہاں کام نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
ایک بڑی رکاوٹ جو میں نے اول اول وہاں محسوس کی” انتظامیہ کا شکنجہ تھا،مولانا خاص طور پر اس شکنجے میں تھے”میں نے طے کیا کہ کسی طرح "صدر مدرس” کو شکنجے سے نکالا جائے،ایک نشست میں میں نے اراکین کمیٹی سے کہا:”کوئی بہت اہم اور بڑا کام درپیش ہو تو آپ حضرات سے ضرور رجوع کیا جائے گا،لیکن آئے دن مدرسہ کی تعلیم و تربیت،نظم و نسق وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے صدرمدرس کو اس شرط کے ساتھ اجازت دی جائے کہ وہ مدرسہ کے اساتذہ سے مشورہ اور فیصلہ کے بعد اس کام کو انجام دیں گے اور کمیٹی کو اطلاع”۔الحمدللہ! یہ بات سب نے بہ اتفاق منظور کی،اس قرارداد کی منظوری کے بعد ایسا لگا کہ ہم سب اساتذہ اور صدر مدرس کو پر پرواز لگ گیا،خوب باہم مشورے ہوتے اور کام بھی، تفصیل کا موقع نہیں۔
مولانا کے دماغ میں کاموں کی اپج بہت ہوتی تھی اور یہ ایک بیماری ہے جو سب کو نہیں لگتی۔

محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا

ہمیشہ کوئی نہ کوئی کام کا نقشہ بناتے اور پلاننگ کرتے،مجھ پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد ہوتا گیا،اس لیے سب سے پہلے وہ مجھ سے اپنی پلاننگ کا تذکرہ کرتے۔کئی مرتبہ تو بعض کاموں کو مولانا نے مجھ سے مشورے کے بعد خفیہ طور پر اس طرح انجام دیا کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور کام نکھر کر سامنے آگیا پھر پردہ فاش ہوا اور سب نے تعریف کی۔
سخت کوش ہونا،سخت جان ہونا،جھیلنا،پاپڑ بیلنا”یہ وہ الفاظ و محاورے ہیں جن کی قدر و قیمت اور ان کا صحیح ادراک وہ لوگ کیا جانیں،جنہوں نے ہمیشہ سازگار اور موافق حالات و ماحول میں کام کیا ہو،الحمدللہ! میں نے ایسے کئی معاصر رفقاء اور کارکنان کو قریب سے دیکھا ہے جنہیں ان سب تلخیوں سے پار ہونا پڑا ہے۔شکایتیں اور اختلافات اپنی جگہ مگر واقعہ یہ ہے کہ مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی کو ان سب سے اچھی طرح پالا پڑا اور بہ استثناء چند،وہ تمام مرحلوں سے کامیابی کے ساتھ گزرتے چلے گئے۔وہی ہوا جو کسی نے کہا ہے:

مرے روکے نہ رکا وقت کا طوفاں لیکن
اک دیا میں نے سر راہ جلایا تو سہی

موضع "اماموری” جیسی بستی میں ایک مدرسہ کا ہوجانا اور پھر وہ نقشہ جو آج نظروں کے سامنے ہے کسی کرامت سے کم نہیں۔کسی کے وہم و گمان میں نہیں رہا ہوگا کہ چند جانوں کی چند سالہ محنتوں اور کاوشوں کے بعد ایک نہیں کئی ایک عالم علماء اور حفاظ یہاں کی سرزمین میں اٹھیں گے اور ایک عالم کو نہ سہی پر کچھ تو ملت کی خدمت کریں گے۔الحمدللہ! اب مستند ادارہ کے کئی فارغین یہاں مل جائیں گے جو خود بھی جوان ہیں اور ان کا عزم بھی جواں،اللہ نظر بد سے بچائے۔چند نام میں لکھتا ہوں:عزیزان گرامی قدر امام الدین ندوی،جنید عالم ندوی،محمد فاروق ندوی،محمد قمرعالم ندوی،محمد صدرعالم ندوی وغیرہ۔ دعا ہے اللہ سب کو جوش ہوش کے ساتھ گامزن رکھے۔
مذکورہ تحریر کا اصل مدعا یہ ہے کہ بہار اب جو۔ ۔۔ ۔ آئی ہوئی ہے
یہ سب پود انہی کے لگائے ہوئے ہیں
کہنے کو تو جس کے جی میں جو آئے کہتا رہا ہے،کہہ رہا ہے اور آئندہ بھی کہتا ہی رہے گا،مگر واقعہ اور حقیقت یہی ہے کہ اس قافلہ کی سالاری میں مولانا کا زبردست ہاتھ ہے،اس سے انکار،”حقیقت اور حق کے انکار”کے مترادف ہے۔
کرنے والے اس دور میں عنقا نہیں،تلاش بسیار کے بعد ضرور کہیں نہ کہیں کوئی مل ہی جائے گا مگر اس دور خود غرضی میں کوئی دودھ کا دھلا نہیں،اگر میرے اور مولانا عبدالقیوم صاحب جیسا خود غرض کچھ کھا پی کر ملت کے لیے ایک بارآور شجر سایہ دار لگا دے تو کیا یہ کچھ کم ہے۔ زبان کھولنے سے پہلے اپنی زبان درازی اور زور زبانی پر غور کر لینا چاہیے،ایسے تمام ناقدین کی خدمت میں یہ شعر ہے:

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

میں کوئی ناجائز کے لیے جواز نہیں بلکہ شریعت مطہرہ کا اصول عرض کرتا ہوں "والعاملین علیہا”(سورہ توبہ۔آیت60)ہرکار خیر کا کرنے والا اپنی ضروریات کو اسی کار خیر کی آمدنی سے پورا کرے گا۔
ہم ہوں،مولانا عبدالقیوم صاحب ہوں یا کسے باشد،اگر خود اپنے بنے یا اپنا بنایا ہے تو بہت کچھ بنا کے دیا بھی۔ یہ اور بات ہے کہ چمگادڑ کو دن کی روشنی میں بھی کچھ دکھائی نہ دے تو اس کا کیا علاج؟
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ممکن ہے دانستہ،نادانستہ لغزشیں ہوں مگر کسی مخلص کے ڈھیر ساری خدمتوں سے صرف نظر کر کے صرف اس کی کسی ایک،دو غیر مصدقہ لغزشوں” کو بنیاد بنا کر اس کی امیج اور شبیہ کو داغدار بناکر پیش کرنا اچھے،سلجھے،سنجیدہ،متین،شریف اور بھلے مانس کا شیوہ نہیں بلکہ میں اپنی خاص زبان میں کہوں کہ یہ مہذب،بدتمیزوں کا شیوہ ہے۔اللہ حفاظت فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔

تحریر: (مولانا) محمد نظیر عالم ندوی
پرنسپل:مدرسہ احمدیہ ابابکر پور،ویشالی
8084827302

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے